Monday, May 30, 2016

فیصلے کا وقت: برطانوی مسلمان | 30 مئی 2016



اس قدر خوف اور بے یقینی میں نے کبھی ان کے چہروں پر نہیں دیکھی اور نہ ہی ان کی گفتگو سے عیاں ہوئی۔ ان کا تو حال ہی  میں ایک شخص صادق خان لندن کا میئر منتخب ہوا ہے۔ پاکستان میں رہنے والوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں۔ ہر کوئی مغربی نظام حکومت اور طرز معاشرت کے گیت گا رہا ہے۔ وہ دیکھو تم انھیں نفرت کے علمبردار کہتے ہو، انھوں نے ایک مسلمان اور وہ بھی پاکستانی پس منظر والا میئر منتخب کیا ہے اور وہ بھی اپنے سب سے بڑے شہر لندن کا۔  لیکن گزشتہ کل سے میں پاکستانیوں کے اجتماعات کی جس سیریز میں مدعو ہوں ان کا عنوان ہی بتاتا ہے کہ یہاں کے رہنے والے پاکستانیوں کو خطرے کی گھنٹی کا احساس ہو گیا ہے۔

عنوان ہے   Time to Decide:  Save the Genration،  فیصلے کا وقت: ’’اپنی نسلوں کو بچایئے‘‘ یہ خوف کس چیز کا ہے، کس چیز سے نسلوں کو بچانا مقصود ہے۔ یہ سوال ان تمام لوگوں کے چہروں پر تحریر تھا جو کل مانچسٹر کے  یورپین اسلامک سینٹر میں موجود تھے۔ وہ لوگ جو خود یا ان کے آباؤ اجداد رزق کی تلاش میں برطانیہ آئے تھے۔ آج صرف اسی صورت میں قابل قبول ہیں کہ وہ ان کے رنگ میں رنگ جائیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ انھوں نے کس قدر عقیدت اور احترام سے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا، جب تک اسے معاشرے میں اس نام سے نفرت کی سنگینی کا احساس نہ ہوا، وہ یہ کہلواتا بھی رہا اور وقت بھی گزرتا رہا۔

لیکن اب اس نے اپنے دوستوں بلکہ گھر والوں سے بھی کہا ہے کہ اسے ’’مو مو‘‘ کہ کر پکارا جائے۔ نئی نسل کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو صادق خان کی طرح ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنا، الحاد یعنی خدا کے نہ ہونے پر یقین رکھنا، اسلام کے عقائد کو جدید لائف اسٹائل کے لیے ایک خطرہ تصور کرنا جیسے خیالات کے قائل ہیں اور وہ اس معاشرے کے اندر قابل قبول ہیں جب کہ دوسری جانب وہ نوجوان ہیں جنھیں اس معاشرے میں پائے جانے والے ایسے تمام رویوں سے نفرت کی بو آتی ہے جو ان کی اقدار، روایات اور مذہب کے خلاف ہیں۔ یہ مسلمان اور اسلام سے پائی جانے والی نفرت اور تعصب کو دیکھ کر ایک دوسری انتہا کو جا پہنچے ہیں اور وہ اس پوری تہذیب سے لڑنے کو تیار ہیں۔

ان تک دین کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے پہنچا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد اس پوری دنیا کا ہدف مسلمان ہیں۔ وہ پوری دنیا جسے مغرب جدید سیکولر جمہوری دنیا کہتا ہے۔ ان نوجوانوں تک معلومات با آسانی پہنچ جاتی ہیں کہ یہاں کسی بھی قسم کی پابندی نہیں۔ وہ صرف میڈیا پر ہونے والے یک طرفہ پراپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوتے۔ ان تک صرف افغانستان اور عراق کی فتح کی ٹی وی نشریات نہیں پہنچتیں بلکہ ہزاروں ویب سائٹس ایسی ہیں جو وہاں پر مرنے والی عورتوں اور بچوں کی لاشیں، بھوک میں بلکتے، سسکتے اور تڑپتے لوگوں کی ویڈیوز اور ظلم و تشدد کرتے سپاہیوں کے کلپ دکھاتی ہیں۔

یہ نوجوان براہ راست اس انٹرنیٹ سے ان لوگوں تک رابطے میں آ جاتے ہیں جو شام، عراق، فلسطین اور افغانستان میں لڑ رہے ہیں یہ صرف پاکستانی نہیں ہیں بلکہ ہر مسلمان ملک کے شہریوں کے بچے ہیں یہ بچے نفرت سے جنم لینے والی نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ یہ اپنے حلیے سے بھی مکمل مسلمان لگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ممکن ہو تو برطانیہ چھوڑ کر ان ملکوں میں جا نے کی تگ و دو میں ہوتے ہیں جہاں امریکا اور یورپ سے جنگ ہو رہی ہو۔ یہ برطانیہ کے لیے سب سے تشویشناک بات ہے، اس لیے کہ ان ملکوں میں جانے والے صرف غیر ملکی پس منظر رکھنے والوں کے بچے شامل نہیں بلکہ وہ گورے بھی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور جو اپنے گوروں کو بہتر انداز میں جانتے ہیں اور ان کی پالیسیوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔

9 مارچ 2016ء کو ایم آئی 6 کے ڈائریکٹر نے شام میں دولت اسلامیہ کے لیے جانے والوں کے ایک بہت بڑے ڈیٹا کے پکڑے جانے کا انکشاف کیا جن میں بائیس ہزار نوجوانوں کے فارم تھے جو انھوں نے شام و عراق میں لڑنے کے لیے دولت اسلامیہ کے لیے بھیجے۔ انٹر نیٹ پر موجود ان فارموں پر تئیس (23) سوالات کے جوابات دینا ہوتے ہیں۔ ان میں برمنگھم کے جنید حسین اور کارڈف کے ریاض خان کے فارم بھی شامل تھے جو شام میں امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اسی ڈائریکٹر نے بتایا کہ ان میں سے گرفتار ہونے والے ایک شخص نے بتایا کہ جلد ہی امریکا پر بہت بڑا حملہ ہونے والا ہے۔ دوسری جانب توپوں کا رخ صرف اور صرف پاکستان کی جانب موڑا جا رہا ہے اور میڈیا اس کے لیے مکمل طور پر کمربستہ ہے۔

چند دن پہلے بی بی سی نے ایک طویل ڈاکومینٹری نشر کی جو مولانا مسعود اظہر کے بارے میں تھی۔ ڈاکو مینٹری کا ٹائٹل تھا۔ ’’The Man Who Brought Jihad to Britain‘‘ (وہ شخص جو برطانیہ میں جہاد لے کر آیا‘‘۔ ڈاکو مینٹری کا آغاز مولانا مسعود اظہر کے 1993ء میں برطانیہ کے ایک دورے سے  ہوتا ہے جب وہ کشمیر میں لڑنے والے نوجوانوں کے گروہ حرکت المجاہدین کے سربراہ تھے۔ ان کا یہ دورہ ایک ماہ پر مشتمل تھا اور انھوں نے یہاں چالیس تقریریں کیں۔ وہ اس وقت 25 سال کی عمر کے تھے جب برطانیہ میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

ڈاکو مینٹری کے مطابق مولانا اظہر کا پہلا جہادی برمنگھم کا محمد بلال تھا جس نے 2000ء میں سرینگر میں خود کو ایک آرمی چھاؤنی کے باہر بم سے اڑایا تھا جس میں 6 بھارتی فوجی اور تین شہری مارے گئے تھے۔ پوری ڈاکو مینٹری اس بات کے گرد گھومتی ہے کہ پاکستان کے مخصوص مسلک کے مدرسے جہاد کی نرسریاں ہیں۔ ان کے مطابق برطانیہ میں 45 فیصد مدارس اور مسجدیں دیوبندی مکتبہ فکر کی ہیں اور یہ مکتبہ فکر کشمیر اور افغانستان میں جہاد کا سب سے بڑا علمبردار ہے اور برطانیہ میں بھی پاکستانی اور افغان نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب دیتا ہے۔

اس ڈاکو مینٹری میں برطانیہ میں موجود پاکستانی مسلمانوں کو جہاد کے تصورات رکھتے ہوئے بتایا گیا ہے۔ اسی میں خاص طور پر سپاہ صحابہ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا بھی ذکر ہے ۔ ڈاکو مینٹری دیکھ کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کو کس طرح میڈیا میں موجود بھارتی لابی نے پاکستان، اور پاکستان میں کشمیر جہاد اور آئی ایس آئی کی جانب موڑا ہے۔ تمام توپوں کا رخ پاکستان کی جانب ہے اور اردو ریڈیو پر ا علانات ہو رہے ہیں کہ پاکستانی پس منظر والے نوجوان ایم آئی 5 اور 6 میں نوکری کریں۔ جو پاکستانی ان اداروں میں کام کرتے ہیں ان کے انٹرویو نشر ہوتے ہیں کہ انھیں کیا کیا سہولتیں میسر ہیں پھر بھرتی کے لیے راغب کیا جاتا ہے۔

یہ ہے ایک ہلکی سی تصویر جو اس معاشرے کی آیندہ نسلوں کی ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ ایسے میں لیبر پارٹی کا نیا سربراہ جرمی کوربائن Jeremy Cor byn ایسے خیالات لے کر سامنے آیا ہے کہ برطانیہ کو داعش، شام اور افغانستان پر حملے نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، حماس اور حزب اللہ کو درست کہتا ہے لیکن ہم جنس پرستی اور الحاد کا بھی علمبردار ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ کنفیوژن کا شکار مسلمانوں کی نئی نسل ہے۔ ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور راستہ بتانے والا کوئی نہیں جو کوئی جیسا چاہتا ہے اس سمت روانہ ہو جاتا ہے۔

Friday, May 27, 2016

طاغوت سے انکار۔ غلطی ہائے مضامین (آخری قسط) | 27 مئی 2016


اس موضوع پر درجن بھر تحریریں دونوں جانب سے پیش کی جا چکی ہیں جن میں ایک لفظ بار بار استعمال ہوا ہے ’’طاغوت‘‘۔ یوں لگتا ہے ہم دونوں نے یہ تصور ذہن میں باندھ لیا ہے کہ پڑھنے والوں کو اس لفظ کی اصل، ماہیت اور معانی سے مکمل واقفیت ہے۔
اس لیے آج تک ہم دونوں نے اس اہم ترین قرآنی اصطلاح پر تفصیل سے گفتگو نہیں کی۔ حالانکہ اگر صرف قرآن پاک کو ہی تفہیم کے لیے استعمال کر لیا جائے تو اس لفظ کے معانی، مطالیب اور مفہوم کھل کر واضح ہو جاتے ہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جن پیرائیوں میں اس لفظ کو استعمال کیا ہے اس سے ہر زمانے کے طاغوت کی بھی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ عربی لغت میں اس کے لفظی معانی بت، جادوگر، گمراہوں کا سردار، سرکش، دیو اورکاہن کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ عربی لغت کے ماہر امام جوہری نے طاغوت کی تعریف ان لفظوں میں کی (والطاغوت الکاہن و الشیطان و کل راس فی الضلال)۔ طاغوت کا اطلاق کاہن  اور شیطان پر بھی ہوتا ہے اور اس شخص پر بھی جو کسی گمراہی کا سرغنہ ہو۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ آٹھ بار آیا ہے اور ہر بار اﷲ نے اس کے مطالیب واضح کیے ہیں۔
پہلی دفعہ سورہ بقرہ میں ٹھیک آیت الکرسی کے بعد آیت نمبر 256 اور 257 میں دو بار آیا اور حق و باطل کی تمیز کے لیے آیا۔ اﷲ فرماتے ہیں ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو شخص ’’طاغوت‘‘ کا انکار کر کے اﷲ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں اور اﷲ خوب سننے اور جاننے والا ہے (البقرہ 256)۔ اس کے بعد اﷲ ایک ذمے لیتا ہے ’’اﷲ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ طاغوت کے ساتھی ہیں جو انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتا ہے (البقرہ 257)۔ دونوں آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ طاغوت سے انکار ایمان کی شرط اول ہے۔ اﷲ اور طاغوت کی فرماں برداری ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔ تیسری مرتبہ قرآن پاک میں اس کا ذکر سورہ النساء کی 51 ویں آیت میں ہے۔
یہ ان اہل کتاب کے بارے میں ہے جو یہودی یا عیسائی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ بت پرست مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ ’’جن لوگوں کو کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا، کیا تو نے نہیں دیکھا وہ بتوں اور ’’طاغوت‘‘ کی تصدیق کر رہے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مومنوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ نے لعنت ڈال دی ہے اور جس پر اﷲ پھٹکار ڈال دے اس کے لیے تم کوئی مدد گار نہ پاؤ گے‘‘ (النساء51،52)۔ اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ مدینے کا یہودی کعب بن اشرف مکہ گیا تھا تو ابوسفیان نے پوچھا کہ ہمارا مذہب اچھا ہے کہ مسلمانوں کا تو اس نے کہا تمہارا یعنی بت پرستی۔ اﷲ نے یہاں بتوں اور طاغوت کو علیحدہ کیا یعنی مکے کے مشرکانہ نظام کو طاغوت کہا۔ اس کے بعد سورہ النساء کی ساٹھویں آیت میں تو اﷲ نے بات اتنی واضح کر دی کہ قیامت تک طاغوت کی پہچان میں مشکل پیش نہ آئے اور ان کے ساتھیوں کو پہچاننا بھی آسان ہو۔
فرمایا ’’کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لائے جو تم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی تم سے پہلے نازل کیا گیا، لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقدمہ فیصلے کے لیے ’’طاغوت‘‘ کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ کھل کر انکار کریں اور شیطان چاہتا ہے کہ انھیں بھٹکا کر پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا کر دے (النساء 60)۔ یہاں اﷲ نے وضاحت کے لیے شیطان اور طاغوت کو علیحدہ کر کے بتایا۔ یعنی طاغوت وہ لوگ ہیں جو اﷲ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے اور بدترین گمراہی کا شکار وہ مسلمان ہیں جو ان کے پاس ان کے قوانین کے مطابق فیصلہ کروانے جاتے ہیں۔ اس آیت کو آج کے دور کے کسی بھی ریاستی نظام پر رکھ کر پرکھ لیں مجھے کوئی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ طاغوت بھی سمجھ میں آ جائے گا اور اس کا وہ نظام بھی جو اﷲ کے قوانین سے انکار پر بنیاد رکھتا ہے۔
اس کے  بعد اﷲ نے اسی سورہ النساء کی 76 ویں آیت میں پوری دنیا میں لڑنے والے دو گروہوں کی نشاندہی فرما دی۔ ’’جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ اﷲ کے راستے میں لڑتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں، لہٰذا اے مسلمانو! تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ شیطان کی چالیں کمزور ہیں (النساء 76)۔ یہاں اﷲ نے لفظ قتال کا استعمال کیا ہے یعنی ایمان والوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ شیطان کے دوست طاغوت سے جنگ کرتے ہیں اور کافروں کی پہچان یہ ہے کہ وہ طاغوت کے ساتھ مل کر جنگ کرتے ہیں۔
یہاں بھی بات اتنی واضح ہے کہ کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد سورہ المائدہ کی آیت نمبر ساٹھ میں بنی اسرائیل کے ان گروہوں کو طاغوت کے بندے کہا گیا جنہوں نے اللہ کے احکامات سے انکار کیا اور ان کو بندر اور سُور بنا دیا گیا۔ ساتویں دفعہ سورہ النحل کی آیت نمبر 36 میں اس کا ذکر ہے ’’ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ تم اﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو‘‘۔ آخری یعنی آٹھویں دفعہ سورہ الزمر کی 17 ویں آیت میں اللہ نے فرمایا ’’جن لوگوں نے طاغوت کی غلامی سے پرہیز کیا اور اللہ سے لو لگا لی، خوشی کی خبر انھی کے لیے ہے‘‘ (الزمر 17)۔ ان تمام آیات سے طاغوت کا صرف اور صرف ایک ہی مفہوم نکلنا ہے ’’اﷲ سے سرکشی اور بغاوت‘‘ اور اس کے حکم سے انکار۔ آپ اس معیار پر ان تمام لوگوں کو رکھ کر دیکھ لیں جو اﷲ کے قانون کو دقیانوسی، قدیم اور آج کے دور کے لیے ناقابل عمل سمجھتے ہیں۔
وہ اسے پسماندگی کی علامت گردانتے ہیں۔ اﷲکے کلام کو سینے سے لگاتے ہیں لیکن اس کے مطابق فیصلہ کرنے سے انکار کرتے ہیں بلکہ اپنے فیصلے اس نظام کے مطابق بنائے گئے قوانین سے کرتے ہیں جو اﷲ سے سرکشی اور بغاوت پر مبنی ہیں۔ دنیا کی ہر جدید ریاست کے  اقتدار اعلیٰ کا ماخذ اور منبع عوام ہیں۔ عوام جسے چاہیں اس پر سرفراز کر دیں جب کہ اسلام کے نزدیک یہ منصب ’’الملک‘‘ یعنی حاکم مطلق صرف اور صرف اﷲ کے پاس ہے اور وہ صرف اس لیے کہ آئین کی کتاب کے آرٹیکل میں اس کا نام رکھ دیا جائے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ یہی تو اﷲ نے فرمایا کہ وہ مجھ پر ایمان لاتے ہیں، آئین میں مجھے حاکم بھی لکھتے ہیں لیکن اپنے فیصلے طاغوت سے کرواتے ہیں۔
اینگلو سیکسن قوانین کے مطابق ان کی عدالتیں کام کرتی ہیں۔ ان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی ان لوگوں کی مطیع ہے جو اﷲ سے سرکشی اور بغاوت کے علمبردار ہیں۔ وہ ان کے شانہ بشانہ لڑتے ہیں۔ فیصلہ کرنا یا کروانا، جنگ یا قتال کرنا، اﷲکی بادشاہی سے انکار کرنا یا اسے ماننا کیا یہ سب ایک سیاسی اور اجتماعی نظام کا حصہ نہیں ہوتا۔ دنیا کے تمام جدید علوم اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کو ریاست کی ضرورت صرف دو اہم ضرورتوں کے لیے ہوتی ہے ایک امن عامہ اور رعایا کا تحفظ اور دوسرا انصاف۔ ورنہ لوگ ہزاروں سال اپنی سڑکیں خود بناتے تھے، اپنے کمزوروں کا خیال خود رکھتے تھے، ان کے اپنے طبیب اور حکیم تھے، وہ کاروبار بھی خود کرتے تھے اور فلاح و بہبود بھی۔ ہاں انصاف اور تحفظ کے لیے انھیں ایک ادارے کی ضرورت تھی اور وہ تھا ریاست۔ یہ ریاست انصاف کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ اﷲ فرماتا ہے جو میرے قوانین کے مطابق فیصلے نہیں کرتا وہ طاغوت ہے۔ کیا یہ صرف معاشرتی ذمے داری ہے۔ نہیں یہ سیاسی اور ریاستی مذہب ہے اور اسلام کا مقصود بھی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ طاغوت کے زیر اثر اس عالمی نظام میں طاغوت کا نکار کیسے کیا جائے اور اﷲ کی بندگی اور غلامی کا طوق کس طرح پہنا جائے۔ اﷲ نے انسانوں کی ہمت و استعداد کے مطابق اس کا راستہ دکھایا ہے۔ اﷲ فرماتا ہے ’’اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو جس قدر تمہاری استطاعت ہے (التفا بن 16)۔ استطاعت کا علم ہر انسان کو ہوتا ہے اور اﷲ کو تو اس کا بخوبی علم ہے۔ اﷲ نے جس کو جتنی استطاعت اور طاقت دی ہے اس کی اسی حساب سے جوابدہی ہو گی۔ جس کو اﷲ نے قلم عطا کیا اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس قلم کو طاغوت کے انکار کے لیے کس قدر استعمال کیا۔
جس کو اﷲ وزارت عظمیٰ عطا کرے گا اس کی جواب دہی اسی حساب سے ہو گی اور ممبران پارلیمنٹ کی اسی کسوٹی پر۔ جو وزیراعظم استطاعت رکھتے ہوئے بھی اگر طاغوت کے قانون کے خلاف عمل نہیں کرے گا، اس کا جواب دہ اﷲ کے حضور ہو گا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب اگر معاشی حالات کے لیے، یحییٰ خان اگر امن عامہ کی بحالی کے لیے، ضیا الحق اگر عوامی امنگوں کے لیے اور پرویز مشرف فوج کے سپہ سالار کی عزت کے لیے حکومت پر قبضہ کرنے کی استطاعت رکھتے اور نظام کو بدلنے کی قوت بھی تو پھر کل روز آخرت ان سے ان کے پاس موجود استطاعت کے بارے میں ضرور سوال ہو گا کہ اس قوت سے جو ان کو عطا کی گئی انھوں نے کس قدر طاغوت کا انکار کیا گیا۔ یہ کامیابی اور ناکامی کے سودے نہیں۔ یہ انکار اور اقرار کی منزل ہے۔ قیامت کے روز ہزاروں پیغمبر ایسے ہوں گے جن کے پیچھے ایک بھی امتی نہ ہو گا۔کیا وہ ناکام ہو گئے۔ ان سے زیادہ کامیاب کون ہے۔کامیابی تو ہے ہی طاغوت سے انکار اور اﷲ کی غلامی کے اعلان میں پوشیدہ۔

Monday, May 23, 2016

طاغوت سے انکار۔ غلطی ہائے مضامین (2) | 23 مئی 2016


جدید علم سیاست، بشریات، معاشرت یا سماجیات وغیرہ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے افراد کا ایک المیہ یہ ہے کہ اللہ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو کھینچ تان کر ان علوم کے سانچے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انھیں اس مبلغ علم نے عطا کیا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹے سے بارہ سو الفاظ پر مشتمل کالم میں اتنے تضادات جمع ہو جاتے ہیں کہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ یہ شخص کہنا کیا چاہتا ہے۔
چونکہ آج کا سکہ جمہوریت ہے، اس لیے اسلام کو بھی اس کے مطابق فٹ کرو اور اگر ممکن ہو سکے تو انسانوںکی معلوم پانچ ہزار سالہ تاریخ کو جمہوریت کے سانچے میں کانٹ چھانٹ کر کے ڈھال دو۔ ابن خلدون پر ایک تہمت باندھتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ جس سیاسی گروہ یا فرد کو عامۃ الناس کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے‘ اس کے لیے مستحکم ریاست قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
اور اگر کوئی اقلیتی گروہ  کسی سبب سے برسراقتدار آ جائے تو بغاوت  اٹھتی اور سیاسی نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے‘‘ یہ ہے ان کے نزدیک انسانی تاریخ کا نچوڑ اور مزید فرماتے ہیں کہ ’’دور حاضر میں اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کے نزدیک وہ تمام مطلق العنان بادشاہ جو پانچ ہزار سالہ انسانی تاریخ پر چھائے رہے صدیاں وہ اور ان کی اولاد حکومتیں کرتی رہیں۔ وہ فرعون اور نمرود جن کے مقابلے میںاللہ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر بھیجے تا کہ ان کے اقتدار کو ختم کرکے اللہ کا اقتدار اس دھرتی پر قائم کریں‘ وہ سب کے سب جمہوری حکمران تھے اور عوام کی اکثریت ان کی حمایت کرتی تھی۔
اس تاریخ میں روم کے بادشاہ بھی تھے اور ایران کے حکمران بھی۔ ہلاکو اور تیمور کی سلطنت میں بھی بہت وسعت تھی‘ سکندر اعظم جیسا ظالم جس نے تھیبس شہر کے شیرخوار بچے سے لے کر نوے سالہ بوڑھے تک سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، وہ جو آدھی دنیا پر حکمران رہا، چنگیز خان کی فتوحات اور عظیم سلطنت، برصغیر میں قطب الدین ایبک سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک شامل تھے۔ انگریز جو یہاں برسراقتدار رہا‘ اپنی تعداد میں کبھی بھی تیس ہزار سے زیادہ نہ تھا۔ یہ اقلیتیں تھیں جو طاقت کے زور پر دنیا پر ہزاروں سال حکومت کرتی رہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ آیندہ کالم میں وہ اس کا جواب یہ دیں گے کہ ان سب بادشاہوں کی افواج دراصل سیاسی پارٹیاں تھیں اور عوام ووٹر۔ کہتے ہیں ریاست عصبیت پر قائم ہوتی ہے۔ مغلوں کی ہندوستان میں کونسی عصبیت یا قبیلے تھے، روم جو پورے یورپ پر حکمران رہا کس خاندانی یا نسلی عصبیت پر حکمران رہا۔ فرعون کی نسل تو ایک مختصر خاندان تھا۔ انگریز کی ہندوستان میں اور فرانس کی افریقہ میں کونسی عصبیت تھی۔ طاقت ہی اس دنیا کا قانون ہے اور غلبہ ہی اقتدار کا راستہ ہے۔
اسلام اور باقی تمام نظام ہائے زندگی میں فرق یہ ہے کہ باقی نظام یا افراد غلبہ حاصل کر کے اپنا ذاتی، خاندانی، قومی یا پارٹی کا اقتدار قائم کرتے ہیں جب کہ اسلام ہے کہ غلبہ حاصل کر کے اللہ کا اقتدار قائم کرو۔ یہی انبیاء کا راستہ ہے اور اسی کی تکمیل سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی۔ قرآن پاک کی بے شمار آیات ہیں جو اس کائنات میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے اور طاغوت کی بادشاہت کو ختم کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ اللہ نے اس حاکمیت کو قائم کر کے حدود و قوانین کی فہرست بنائی ہے جنھیں نافذ کرتا ہے۔
اللہ فرماتا ہے ’’اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں (المائدہ45)۔ کس قدر واضح حکم ہے اور ایک اور مقام پر ہماری جدید منافقانہ روش کے بارے میں اللہ نے کس قدر کھول کر بتا دیا ہے۔ ’’کیا تو نے نہیں دیکھا، ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے اس کتاب پر جو تیری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے نازل کی گئی تھیں اور پھر چاہتے ہیں کہ فیصلے کے لیے اپنا معاملہ طاغوت کے پاس لے جائیں، حالانکہ انھیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا (النساء 60)۔
زمین پر اللہ کی حاکمیت کا قیام ہی تھا جس کے لیے اولوالعزم رسول بھیجے گئے، ورنہ نمرود اور فرعون دونوں موصوف کالم نگار کے نزدیک اس زمین پر ریاست اور حکومت دونوں ہی چلا رہے تھے بس انھیں ذرا سی ہدایت ہی چاہیے تو تھی۔ یہ انبیاء ان کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتے اور اپنی راہ لیتے۔ نہ جہاد کی ضرورت تھی اور نہ آگ میں جلنے کے امتحان کی۔ خود سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مکے کے تربیت یافتہ سو کے قریب صحابہ کرام کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ کی ریاست قائم کی تھی اور بدر کے میدان میں صرف تین سو تیرہ نہتے جن کے پاس دو گھوڑے، چھ زریں اور آٹھ تلواریں تھیں لے کر طاغوت سے مقابلے پر اتر آئے تھے۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ میثاق مدینہ سے جمہوری طور پر اقتدار حاصل کیا گیا تھا اور سب کو ساتھ ملا کر حکومت قائم کی گئی تھی۔ جیسے آج کے دور میں کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر ہوتا ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس سے بڑا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ آپؐ نے اس طرح کی جمہوری پیشکش مکے میں ٹھکرا دی تھی جب تمام سرداران قریش نے آپ کو متفقہ سردار بنانے کی پیشکش کی تھی‘ لیکن آپ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں تو میں ان کی بات نہیں مانوں گا۔ مدینے میں قانون اللہ کا نافذ ہوا تھا، آخری اور حتمی فیصلے کی حیثیت رسول اکرمؐ کو حاصل تھی۔ کسی عیسائی‘ یہودی یامشرک کو قانون سازی میں اختیار حاصل نہ تھا۔
اگر ریاست اور حکومت دین کا مقصد نہیں تھا تو پھر فتح مکہ کے بعد رسول اکرمؐ نے پورے جزیرہ نما عرب میں صحابہ کو حاکم کیوں بنا کر بھیجا تھا۔ وہ وہاں اللہ کا قانون نافذ کرنے گئے تھے صرف تبلیغ کرنے نہیں گئے تھے۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت سے موصوف کالم نگار نے جس طرح جمہوریت نکالنے کی کوشش کی ہے اس پر مجھے ان مغرب سے مرعوب دانشوروں پر ترس آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے مدینے کے افراد سے رائے لی تھی۔ اس لیے یہ ووٹنگ ہو گئی۔ خلیفہ ہمیشہ رائے سے منتخب ہوتا ہے۔
کاش وہ جانتے کہ اسلام میں اہل الرائے کی شرائط بہت کڑی ہیں۔ مدینہ کی آبادی اس وقت اکثریت میں صرف صحابہ کرام پر مشتمل تھی۔ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کو صرف تیرہ برس ہوئے تھے اور مدینہ میں وہی لوگ موجود تھے جن کو رسول اللہ نے خود درس حکمت دیا تھا۔ یہ صالحین کا ایک شہر تھا جس میں ہر کوئی صاحب الرائے کے مقام پر فائز تھا۔
کیا عبدالرحمن بن عوفؓ نے مصر، شام، کوفہ، بصرہ، یمن، فارس گھوڑے دوڑائے تھے کہ جاؤ جا کہ ریفرنڈم کروا کر آؤ کہ تم لوگ حضرت علیؓ یا حضرت عثمان میں کس کو خلیفہ چاہتے ہو۔ اگر مدینے والوں کی رائے لی جا سکتی تھی تو باقی پوری سلطنت کی بھی رائے لی جا سکتی تھی۔ لیکن مدینے کے لوگوں کے بارے میں یہ مسلم حقیقت تھی کہ ان کی اکثریت یعنی ننانوے فیصد صاحب الرائے اصحاب کرام کی ہے‘ اس لیے ان کی رائے پر فیصلہ کر دیا گیا۔ یہ اس جمہوریت کے برعکس ہے جس میں ایک قاتل، چور، ڈاکو اور ہیروئن بیچنے والے کی رائے یا ووٹ اور ایک نیک، پرہیزگار اور عالم کا ووٹ برابر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس نبیؐ برحق نے مدینے کی ریاست کو قائم کر کے، اللہ کے قوانین کا نفاذ کر کے دکھایا ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے حکومت کے بارے میں صرف ایک ہی رہنمائی فرمائی کہ خلافت قریش میں سے ہو گی۔
یہ حدیث دراصل آپؐ کی بصیرت اور علم کی بنیاد پر کی گئی پیش گوئی تھی جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور اگلے سات سو سال تک مسلمانوں کی قیادت اور سیادت صرف  قریش کے ہی ہاتھ میں رہی۔ اسلام میں خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا تصور ہے جس کے خلاف اٹھنا بغاوت اور فساد فی الارض ہے۔ یہ وہ حکمرانی ہے جو زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرے اور اس کا قانون نافذ کرے وہ جائز اور برحق ہے اور اس کسوٹی پر خلافت راشدہ پوری اترتی ہے لیکن اگر کوئی حکمران ایسا نہیں کرتا تو خواہ وہ بظاہر کلمہ گو مسلمان ہو اس کے خلاف آواز بلند کرنا جہاد ہے بلکہ افضل ترین جہاد ہے۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا جب آپؐ پہلے جمرہ پر کنکریاں پھینک رہے تھے اور کہا یا رسول اللہؐ کونسا جہاد افضل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے، دوسرے جمرہ پر یہی سوال کیا، پھر تیسرے جمرے پر سوال کیا آپؐ خاموش رہے اور جب آپ سواری پر بیٹھنے لگے تو اسے بلایا اور ’’کہا ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنا‘‘ (مسند احمد، ابن ماجہ)۔ یہی نہیں بلکہ جو شخص ایسے حکمران کے ہاتھوں مارا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سید الشہداء کہا ہے۔ ’’حاکم نے جابر سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’(سید الشہداء، حمزہ بن عبدالمطلب و رجل قام الٰی امام جائر فامرہ نھا فقتلہ) ’’شہدا کے سردار حمزہ بن عبدالمطلب ہیں اور وہ شخص بھی جو جابر حکمران کے سامنے کھڑا ہوا‘ اسے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا اور حکمران نے اسے قتل کر دیا‘‘۔
رسول اکرمؐ کی یہی حدیث ہے جس کی بنیاد پر پوری امت چودہ سو سال سے سیدنا امام حسینؓ کو سید الشہداء کے لقب سے پکارتی ہے۔ امت کی تاریخ بھری پڑی ہے ان لوگوں سے جو اس افضل ترین جہاد کے لیے نکلے اور شہداء کے سرداروں میں جن کے نام درج ہوئے کیا یہ امت حضرت احمد بن حنبلؒ پر برسائے جانے والے کوڑوں کی احسان مند نہیں کہ جن کی استقامت نے دین کو قائم رکھا۔ وارثین سنت امام حسینؓ ہر دور میں اس امت میں موجود رہے جنھیں موصوف کالم نگار فساد فی الارض کا نام دیتے ہیں۔ فساد فی الارض کا قانون صرف خلیفہ راشد کے خلاف کھڑے ہونے والے گروہ پر نافذ ہوتا ہے۔ کیا موجودہ دور کے حکمران جو طاغوت کے پروردہ، ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کے وارث ہیں۔
اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا۔ زمین پر آج فرعون و نمرود ووٹ کی طاقت سے برسراقتدار آتا ہے اور افغانستان اور عراق میں ویسا ہی ظلم روا رکھتا ہے جیسا فراعین رکھتے تھے۔ طاغوت صرف طاغوت ہے طاقت سے حکمرانی حاصل کرے یا ووٹ سے۔ اس کا انکار ہر مسلمان پر فرض ہے ورنہ وہ مسلمان نہیں۔ اور ہمارے حکمران اس کے کاسہ لیس اور حواری ہیں۔ طاغوت سے بھی بدتر۔

Friday, May 20, 2016

طاغوت سے انکار۔ غلطی ہائے مضامین | 20 مئی 2016


میرے بنیادی کالم ’’طاغوت سے انکار‘‘ کے بعد جس فکری بحث کا آغاز خورشید ندیم صاحب نے کیا ہے میں اس کے لیے ان کا ممنون ہوں کہ مجھے ایک بار پھر سے قرآنی تعلیمات‘ سیرت رسول اللہﷺ‘ صحابہ کا طرز عمل اور فقہائے امت کی آراء پر ایک نظر ڈالنے کا موقع ملے گا اور گزشتہ چودہ سو سالوں میں اس امت میں جو انقلابی تحریکیں اٹھیں‘ عزیمت کی جو داستانیں رقم ہوئیں‘ حق گوئی کے جو معیار بلند ہوئے اور راہ حق میں صعوبتوں اور بلاؤں کے باوجود جس صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا گیا ان کا ایک بار پھر سے مطالعہ کروں گا۔
 یہ لوگ تو امت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ یہ باطل اور طاغوت کے خلاف اٹھنے والے قافلوں کے سالار ہیں۔ یہی تو ہماری تاریخ کی آبرو ہیں ورنہ ہماری تاریخ تو خلفائے راشدین کے بعد ملوکیت کی ایک طویل داستان ہے۔ میرے کالم کے جواب میں اب تک تین مسلسل کالم تحریر کیے جا چکے ہیں۔ پہلا کالم تو ایک تعارفی نوعیت کا تھا جس میں انھوں نے میرے کالم میں اٹھائے گئے موضوعات کو بحث کا محور بنایا، لیکن اصل اور بنیادی نکتہ زیر بحث وہی ہے کہ ’’تبدیلی قیادت سے آتی ہے یا معاشرے سے‘‘۔ اگلے دو کالموں میں ساری کی ساری بحث کا نچوڑ یہ تھا کہ ’’مسلم امہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اہل علم اگر اہل اقتدار میں کوئی کجی دیکھتے یا فرائض سے انحراف پاتے تو ان کو متوجہ کرتے اور آخرت میں جواب دہی کا احساس دلاتے۔
 ان کے نزدیک یہ جمہور علماء کا موقف رہا ہے جب کہ ایک اقلیتی گروہ انقلابی سوچ کا حامل بھی رہا ہے‘‘۔ کس خوبصورتی سے انھوں نے حق و باطل کو جمہوریت کی کسوٹی پر عددی اکثریت سے ناپنے کی کوشش کی ہے یعنی جسے علماء کی اکثریت مان لے وہ حق ہے خواہ وہ شاہانہ دربار کے کاسہ لیس ہوں‘ وقتی مصلحت کا شکار ہوں یا عزیمت اور حق گوئی کی مصیبتوں سے ڈرتے ہوں۔ خورشید ندیم صاحب کا یہ استدلال اسلامی تاریخ پر سچ ثابت نہیں ہوتا۔ اس امت میں ہر دور میں بڑے سے بڑا صاحب علم وقت کے بادشاہ کی کجی کے خلاف صرف نصیحت پر اکتفا نہیں کرتا رہا بلکہ اس نے نعرہ حق بلند کیا‘ کوڑے کھائے‘ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ یہاں تک کہ شہادت کے منصب سے بھی سرفراز ہوتے رہے۔
 لیکن تاریخ سے جس طرح کا استدلال خورشید ندیم صاحب نے کیا ہے اس کی جرات اور حوصلہ تو چودہ سو سال میں کسی مسلم مفکر نے نہیں کیا۔ انھوں نے کمال یہ کیا ہے کہ وہ انقلابی راستہ جس پر چلنے کا آغاز سیدنا امام حسینؓ نے کربلا کے میدان سے کیا تھا اور جس پر زید بن علی‘ امام نفس ذکیہ‘ امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر اور اس امت کے چراغ راہ چلتے رہے‘ اسے نظرانداز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا آغاز خوارج سے ہوا تھا۔ جو امت چودہ سو سال سے اس بات پر متفق ہے کہ خلفائے راشدین چار ہیں اور انھی کا نام خطبے میں آج تک پڑھا جاتا ہے۔ موصوف نے ان کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں اور سازشوں کو انقلابی تحریک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی اسلامی انقلابی تحریک جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کا طریق کار غلط تھا۔
 حضرت عثمانؓ کے بارے تو تاریخ کی گواہی اتنی مستند ہے کہ ان کے خلاف اٹھنے والے لوگ مصر‘ کوفہ اور بصرہ میں خفیہ خط و کتابت سے رابطے میں اکٹھے ہوئے پھر حضرت عثمانؓ کے خلاف بے بنیاد الزامات کی فہرست مرتب کی‘ مدینہ پہنچے‘ حضرت علیؓ‘ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تینوں نے انکار کیا بلکہ حضرت علیؓ نے تو ان کے ایک ایک الزام کا جواب دے کر حضرت عثمانؓ کی پوزیشن واضح کی۔ مدینے کے مہاجرین اور انصار میں سے کوئی ایک بھی ساتھ نہ تھا۔
 حضرت عثمانؓ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بصرے میں ان کے گورنر حضرت سعید بن العاصؓ کے طرز عمل سے ناراض ہو کر کچھ لوگوں نے بغاوت برپا کی تو عوام نے ان کا ساتھ نہ دیا اور جب حضرت عثمانؓ کے مقرر کردہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے لوگوں کو بیعت کی تجدید کے لیے بلایا تو لوگ بغاوت کے علمبرداروں کو چھوڑ کر بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے (طبقات ابن سعد)۔ اس پورے گروہ میں جو حضرت عثمانؓ کے خلاف اٹھا کسی عالم‘ فقیہہ‘ مجتہد کا نام ہی بتا دیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنی دعوت کو عام نہیں کیا بلکہ خفیہ سازش سے حضرت عثمانؓ کو مطعون کرنے کی کوشش کی۔
 اس خفیہ سبائی سازش اور خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ کے خلاف جنم لینے والی خفیہ تحریک کو جو چند افراد پر مشتمل تھی اس کے بارے خورشید ندیم صاحب فرماتے ہیں ’’یہ اس امت میں اٹھنے والی پہلی انقلابی تحریک کا عملی آغاز تھا‘‘۔ اس کے بعد ان کے نزدیک دوسری انقلابی تحریک خوارج کی تھی۔ آدمی جب استدلال کی قوت کو اس طرح استعمال کرنے لگے کہ حق و باطل میں فرق مٹ جائے تو پھر صرف ذات کا تعصب راج کیا کرتا ہے۔ جس گروہ کو پوری امت چودہ سو سال سے متفقہ طور پر گمراہ تصور کرتی ہے اور جو خلیفہ راشد سیدنا علیؓ کے خلاف اٹھے تھے انھیں اسلامی انقلابی تحریک کا سرخیل کہنا اور پھر انھیں طریق کار کی بنیاد پر غلط قرار دینا کس کمال کی بات ہے۔
 موصوف کو ایک بار قرآنی تعلیمات اور سیرت رسولﷺ اور احادیث کے ذخائر کو دوبارہ دیکھنا چاہیے۔ کیا ایک راشد خلیفہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ نہیں جناب والا نہیں۔ لیکن ایک ظالم‘ فاسق‘ اور ایسے حکمران کے خلاف جو نماز‘ زکوٰۃ‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نظام کو نافذ نہ کرے‘ بغاوت کرنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے (صحیح الجامع)۔ کس خوبصورتی سے موصوف سیدنا امام حسینؓ کا ذکر کیے بغیر حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ تک جا پہنچے۔
 سیدنا امام حسینؓ اس وقت موجود تمام اصحاب سے مختلف رائے رکھتے تھے اور یہ ان کی بصیرت تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ آج اگر اس امت کو واضح طور پر نہ بتایا گیا کہ تمہارا راستہ بدلا جا رہا ہے تو پھر کبھی بھی حق کی گواہی دینے والا نہیں اٹھے گا خواہ اس کے لیے جان بھی دینا پڑے۔ کوفے کے افراد کے ہزاروں خطوط جن کی بنیاد پر آپ اس جانب روانہ ہوئے تھے کہ کیا اس بات کا اشارہ نہیں کہ آپ ایک انقلابی تحریک کے قافلہ سالار بننے جا رہے تھے اور رہتی دنیا تک رہیں گے ان کی مظلوم شہادت سے جو چراغ روشن ہوئے وہ آج تک اس امت کا سرمایہ ہیں۔
 کیا آپ تاریخ سے حضرت زین العابدین کے فرزند حضرت زید بن علی کے خروج اور ان کی انقلابی تحریک کو بھی کھرچ دیں گے جن کے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ کا فتویٰ یہ تھا ’’خروجی بضاھی خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم بدر‘‘ (حضرت زید بن علی کا اس وقت اٹھ کھڑے ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے)۔ حضرت زید بن علی اموی بادشاہ ہشام بن عبدالمالک کے خلاف جہاد کی دعوت لے کر اٹھے تھے۔
 انھوں نے فرمایا ’’اللہ کی قسم مجھے یہ چیزسخت ناگوار ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروں اور اس حال میں کہ میں نے ان کی امت کو نا معروف کا حکم دیا ہو اور نہ ہی کبھی منکر سے منع کیا ہو‘‘۔ آپ کی دعوت جہاد کی تقریر کے یہ الفاظ ہم تمام لوگوں کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ آؤ اور ظالموں سے جہاد کرو‘‘۔ اس وقت بھی ’’جمہور علماء‘‘ زید بن علی کے خروج کے خلاف تھے لیکن ان کی شہادت کی مشعل وہ راہ متعین کرتی ہے جو حق کے اعلان کی راہ ہے اور جن کی تصدیق امام ابو حنیفہ کا یہ اعلان کہ ان آمد رسول اللہ کی بدر میں آمد سے مشابہت رکھتی ہے۔
 اللہ نے امام ابو حنیفہ کے اس فقرے کی اس قدر لاج رکھی کہ جب کوفے کے لوگ حضرت زید بن علی کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو ان کے ساتھ اتنے ہی لوگ تھے جتنے بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یعنی تین سو تیرہ۔ امام ابو حنیفہ نے عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کے مقابلے میں حضرت امام حسنؓ کی اولاد میں سے ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن علی کے خروج کی بھی علانیہ حمایت کی اور سرمایہ بھی فراہم کیا۔ آپ کو اس بڑھاپے کے عالم میں کوڑوں کی سزا دی گئی اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ پھر لوگوں کے خوف سے باہر نکالا گیا اور ابو جعفر المنصور نے انھیں ایک دن اپنے پاس بلایا اور ایک پیالے میں زہر دے کر پینے کو کہا‘ آپ نے کہا میں خود کشی میں تمہاری مدد نہیں کروں گا۔
 آپ کو پکڑ کرزبردستی زہر منہ میں انڈیلا گیا۔ اس سے پہلے انھیں روزانہ قید خانے سے باہر نکالا جاتا اور کپڑے اتروا کر لوگوں کے سامنے کوڑے برسائے جاتے۔ اسی منصور کے سامنے ایک اور کلمہ حق امام مالک نے ادا کیا۔ آپ کی مشکیں اس زور سے کس دی گئیں کہ آپ کے دونوں بازو جڑ سے اکھڑ گئے یہی وجہ ہے کہ مالکی آج بھی امام مالک کی اتباع میں ہاتھ کھلے چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں پھر انھیں ستر کوڑوں کی ضربیں لگائی گئیں۔
 آپ اس زخمی حالت میں بھی اس اونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو گئے جو آپ کو سوار کر کے شہر میں رسوا کرنے کے لیے لایا گیا تھا اور فرمایا (من عرفنی فقد عرفنی و من لم یعرفنی فا نا مالک ابن انس اقول ان الطلاق المکرہ لیس بشئی) ’’جو مجھے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا جان لے میں مالک انس کا بیٹا اس مسئلے کا اعلان کرتا ہوں کہ جس کے اعلان سے مجھے جبراً روکا جا رہا ہے۔ آج امام ابو حنیفہ کے کروڑوں مقلدین ہیں اور امام مالک کے بھی کروڑوں مقلدین‘ لیکن کوئی اس عزیمت اور انقلابی روح کے ساتھ ظالم بادشاہ کے سامنے جہاد کے لیے کھڑا نہیں ہو رہا یہی اس امت کی بے بسی ذلت و رسوائی اور پستی کی وجہ ہے۔

 (جاری ہے)

Monday, May 16, 2016

بحران سے نکلنے کا آسان راستہ | 16 مئی 2016


ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا، قوم کے اعصاب کو شل کر دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کسی قوم کی کیا ہو سکتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سوتنوں کی طرح ایک دوسرے کو طعنے دینے میں مصروف ہیں لیکن کسی جانب سے کوئی عملی اقدام ہوتا نظر نہیں آتا۔ جلسے ہو رہے ہیں، جلوس نکالے جا رہے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر دھماچوکڑی مچتی ہے۔ طعن و تشنیع کے تیر چلائے جاتے ہیں۔
نتھنوں سے پھنکاریں نکلتی ہیں اور آنکھوں سے شعلے۔ رات کو سب میٹھی تان کر سو جاتے ہیں۔ اگلی صبح پھر وہی تماشا۔ حیرت تو حکومت کو ان جگادریوں پر ہوتی ہے جو روز پریس کانفرنس کرتے ہیں، اپوزیشن کے رہنماؤں کو کرپٹ اور چور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کی حکومت کس قدر نااہل ہے، ان بددیانتوں سے ملی ہوئی کہ کبھی ایف آئی اے، نیب یا ایف بی آر کو حکم نہیں دیتی کہ ان اپوزیشن کے بددیانت لیڈروں کے خلاف مقدمے درج کرو۔ دوسری جانب اپوزیشن ہے کہ جس میں کئی دہائیوں کے تجربے کے حامل سیاست دان موجود ہیں۔
وکلاء کا ایک جم غفیر ان کے ساتھ ہے، روز ایک نیا لائحہ عمل طے ہوتا ہے، روز ایک نئی ڈیمانڈ سامنے آتی ہے، آخری ڈیمانڈ وہ سوالنامہ ہے جو وزیراعظم کو دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے اس سوالنامے کے بعد پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جواب دوں گا، نہیں دوں گا، جواب لے کر رہیں گے، جہاں جواب دینا ہو گا وہاں نہیں، بیانات کا ایک ایسا سلسلہ ہے کہ چلا آ رہا ہے۔ البتہ ایک مطالبہ درست ہے کہ اگر آپ نے وزیراعظم کے خلاف صحیح تحقیقات کرنا ہیں تو ان کا استعفیٰ ضروری ہے کیونکہ پاکستان کے تمام ادارے مفلوج کر دیے گئے ہیں، کسی نیب، ایف آئی اے یا ایف بی آر میں ہمت نہیں کہ کرسی پر متمکن وزیراعظم کے خلاف تحقیقات کی فائل کو ہاتھ بھی لگائے۔ اپوزیشن کو معلوم ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے۔
شاید اس لیے یہ مطالبہ کیا گیا تا کہ معاملہ طول پکڑے اور کچھ حاصل نہ ہو۔ حالانکہ پانامہ لیکس کے آنے اور حسین نواز کے اعتراف کے بعد وزیراعظم کو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹانے کا عمل صرف چند ہفتوں کی کارروائی ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اپوزیشن میں موجود اتنے بڑے بڑے قانون دان اس طرف کیوں نہیں سوچ رہے۔ یہ طریق کار کیا ہے؟
ڈاکٹر اکرام الحق میرے بیچ میٹ ہیں، انھوں نے میرے ساتھ 1984میں سول سروس جوائن کی۔ وہ انکم ٹیکس گروپ میں آئے تھے۔ چونکہ سول سروس سے پہلے ایک صحافی تھے، اس لیے ان کا جی زیادہ دیر تک انکم ٹیکس میں نہ لگ سکا اور نوکری چھوڑ وکالت شروع کی اور اب سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ انکم ٹیکس وہ محکمہ ہے جس کے انسپکٹر سے لے کر چیف کمشنر تک ’’شریف خاندان‘‘ کی ایک ایک رمز سے واقف ہے۔ کوئی بھی شخص جس کی پوسٹنگ لاہور میں رہی ہو اسے ایسی ایسی کہانیاں معلوم ہیں کہ بیان کرنا شروع کر دی جائیں تو ایک ہزار رات کی کہانیاں سنائی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے اس دن اسی انکم ٹیکس کے ’’شریفانہ‘‘ علم کی بنیاد پر ایک حیرت انگیز راستہ مجھے بتایا اور تمام کاغذات کھول کر سامنے رکھ دیے۔ میں حیران رہ گیا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو کس قدر آسانی سے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اپوزیشن کے عظیم وکلاء نے اس جانب آج تک پیشرفت نہیں کی۔ ورنہ اب تک کیس کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ ترتیب وار تفصیل رکھ رہا ہوں تا کہ ان وکلاء حضرات کے لیے آسانی رہے جو اپوزیشن میں ہیں اور اب تک خاموش ہیں۔
(الف) نواز شریف صاحب نے 2013کے انتخابات کے وقت داخل کیے گئے گوشواروں میں اپنی اہلیہ اور بیٹی مریم صفدر کو اپنے زیر کفالت DEPENDENT ظاہر کیا ہے مگر اپنی بیٹی کے تمام تر اثاثہ جات  جو اندرون ملک اور بیرون ملک تھے انھیں ظاہر نہیں کیا۔ اثاثہ جات چھپانے کے ضمن میں سپریم کورٹ نے حال ہی میں محمد احمد چٹھہ بنام افتخار چیمہ فیصلے میں لکھا کہ جو شخص بھی اپنے زیر کفالت (dependent) فرد کا کوئی اثاثہ ظاہر نہیں کرے گا وہ نااہل قرار پائے گا۔
(ب) محمد نواز شریف نے 2013کے الیکشن کے وقت 2011,2010 اور 2012کے مالی سالوں کے اثاثہ جات اور آمدنی و خرچ کا حساب جو محکمہ انکم ٹیکس کو دیا تھا وہ اپنے نامزدگی کے کاغذات کے ہمراہ پیش کیا۔ یہ ایک قانونی ضرورت تھی۔ ان کاغذات کے مطالعہ سے مندرجہ ذیل سوالات پٹیشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔
(1) شمیم فارمز (رائے ونڈ محل) کے اخراجات کن ذرایع سے پورے کیے گئے۔
(2) محترمہ مریم صفدر کے نام زرعی زمین کی مالیت 24,851,526 روپے دکھائی گئی، مگر غیر ملکی آف شور کمپنیوں کے ذریعے حاصل کیے گئے قرضوں کو چھپایا گیا۔ بینک کاغذات کے مطابق انھوں نے بھائی حسین نواز کے ساتھ مل کر قرضہ کے لیے دستخط کیے۔ اگر ان کا سمندر پار کمپنیوں یا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں تو انھوں نے کس حیثیت سے دستخط کیے تھے۔
(3) محمد نواز شریف کا اپنی زیر کفالت بیٹی کے اثاثہ جات چھپانا ان کی نااہلی کے لیے کافی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ III کے تحت ان پر کیس بھی بنے گا۔ ایف بی آر ان کی فائل کو 2019ء تک قانونی طور پر کھول سکتا ہے۔
(4) انکم ٹیکس گوشواروں میں محمد نواز شریف نے اپنی آمدن برائے سال 2011میں تنخواہ (10,20,000) زرعی آمدن (50,75,000) اور دوسری آمدن (14,14,23,354) روپے اور بینک سے حاصل کردہ سود (97,755) بتائی ہے۔ جب کہ بیٹے سے تحفے میں حاصل کردہ رقم (12,98,36,905) روپے پر ٹیکس ادا نہیں کیا۔
یہ رقم نہ تو کسی کراس چیک سے آئی اور نہ ہی بیٹے کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تھا۔ یوں یہ رقم قابل ٹیکس تھی اور محمد نواز شریف نے واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کیا اور یوں آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 کے تحت نااہل قرار دیے جا سکتے ہیں۔
(5) حدیبیہ ملز محمد نواز شریف صاحب نے 2011 اور 2012میں اپنے والد محترم کی وفات کے بعد وراثت میں ملنے والے شیئرز تو ظاہر کیے مگر لندن کی پراپرٹی میں حصہ نہیں دکھایا۔ 1999 میں لندن کی عدالت کے فیصلے کے مطابق محمد نواز شریف کے والد میاں محمد شریف جائیداد کے مالک تھے تو اس جائیداد کا شرعی حصہ وفات پر جناب محمد نواز شریف کو ضرور ملا ہو گا۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں دکھایا۔ اس لیے کہ یا تو پراپرٹی ان کے نام پر نہیں تھی یا پھر شروع ہی سے بچوں کے نام پر خریدی اور 2007میں بچوں کے نام منتقلی ایک دھوکا ہے۔
(6) گارڈین اخبار نے مورخہ 5 اپریل 2016 کو اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے محترمہ مریم صفدر نے اپنے بھائی حسین نواز کے ہمراہ ایک اور سمندر پار کمپنی (Coomba Group) کے ذریعے 3.5 ملین برطانوی پاؤنڈ کا قرضہ حاصل کیا ہے۔ اس کمپنی کا بھی کوئی ذکر وزیراعظم یا مریم صفدر کے اثاثہ جات میں نہیں ہے۔
ان تمام حقائق کو سامنے رکھا جائے تو انکم ٹیکس گوشواروں میں غلط بیانی پر ایف بی آر انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 122(5) اور III کے تحت فوری کارروائی کر سکتا ہے۔ الیکشن قوانین Peoples Representative Act کے سیکشن 12(2)(C&D) کے تحت نااہلی کا فوری مقدمہ درج ہوتا ہے۔ پانامہ لیکس کے آنے کے فوراً بعد یہ قدم اٹھایا جانا چاہیے تھا۔
اس لیے کہ ایسا کرنے سے آپ وزیراعظم نواز شریف کو دفاعی پوزیشن پر ڈال کر جواب دینے پر مجبور کر سکتے تھے اور جواب ان کے پاس نہیں تھے اور ثبوت اس قدر واضح تھے کہ نااہلی ان کا مقدر بن جاتی۔ لیکن اپوزیشن کو تو اس معاملے کو کھینچنا ہے، طول دینا ہے، ایک میلہ ہے جو لگا ہوا ہے۔ قوم کے اعصاب ہیں جو شل ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی ہے جو اس قوم کو اس عذاب سے بھی نجات دے اور وزیراعظم کی نااہلی کے بعد کرپشن کے عذاب سے بھی۔ شاید موجودہ سیاسی قیادت ایسا نہیں چاہتی۔ ورنہ یہ سب سے آسان راستہ ہے۔ اس کے بعد سب کو معلوم ہے کہ کیسے سب تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا۔

Friday, May 13, 2016

یہ بنگلہ دیش نہیں پاکستان کا المیہ ہے | 13 مئی 2016


Monday, May 9, 2016

طاغوت سے انکار | 09 مئی 2016


Friday, May 6, 2016

چور کو پڑ گئے مور | 06 مئی 2016


Monday, May 2, 2016

یہ کہیں خامیٔ ایماں ہی نہ ہو | 02 مئی 2016