theharferaz@yahoo.com
Monday, June 27, 2016
Friday, June 24, 2016
Monday, June 20, 2016
ماں کی موت | 20 جون 2016

یہ فقرے ایک ایسی خاتون کے ہیں جس کی عمر حقوقِ نسواں کے قافلے کے ساتھ چلتے گزری ہے، بنیادی طور پر ایک شاعرہ جس کی کتاب ’’لب گویا‘‘ میں نے عین عنفوان شباب میں پڑھی اور اس کی کتنی غزلوں پر سردھنتا رہا۔ نہ باغیانہ اور نہ ہی روایت پسندانہ۔ ایک شعر تو ایسا ہے اس کے اشعار میں سے ہے جو میں آج بھی کبھی کبھی شدید تنہائی، اکتاہٹ اور اضطراب کے عالم میں گنگنا لیتا ہوں۔
روح بھی تشنہ رہے گی ریگِ ساحل کی طرح
جسم بھی شوقِ تعلق میں اجڑتا جائے گا
آج سے ٹھیک چوالیس سال قبل جب وہ حلقۂ ارباب ذوق گجرات میں آئی تو مجھے وہ اپنے اس شعر کے بالکل الٹ محسوس ہوئی۔
دیکھ کر جس شخص کو ہنسنا بہت
سر کو اس کے سامنے ڈھکنا بہت
مرحوم شاہد واسطی بتاتے تھے کہ وہ اسے اس زمانے سے جانتے ہیںاسے جب وہ کس کے اوڑھنی لپیٹے مشاعروں میں پڑھنے آتی تھی۔ میں نے جب اس شعر والی غزل سنانے کی فرمائش کی اس نے مجھے ایک سولہ سالہ نوجوان سمجھتے ہوئے اس فرمائش پر ازراہ تفنن کہا ’’تو کیا ڈھک کے دکھاؤں‘‘۔ روایت میں گندھی اور بغاوت کی راہ پر چلتی اس کشور ناہید کے کالم کے یہ فقرے میرے لیے نہ تو چونکا دینے والے ہیں اور نہ ہی حیرت کا سامان۔ البتہ تعجب ہے کہ یہ اتنی دیر کے بعد کیوں ادا ہوئے۔ کالم کا عنوان ہی ایسا ہے ’’ماؤں کی ممتا اور عورتوں کی عزت کہاں گئی‘‘ لکھتی ہیں ’’یہ بے ہودہ گفتگو سن کر میرا بلڈ پریشر ایک دم چڑھ گیا کہ میرا کیا، کسی کا بھی ذہن قبول نہیں کر رہا تھا کہ مائیں بھی ایسی ظالم ہو سکتی ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو گھر بلا کر خود آگ لگا دیں۔‘‘ کتنے سالوں کے بعد اسے وہ ماں یاد آ گئی جس کو تحفظ حقوق نسواں کی تیز رفتار گاڑی کے نیچے کچل دیا گیا اور اس کی چیخیں تک پسند کی شادی، ظالم سماج اور تاریخی جبر کے بلند و بالا نعروں کے اندر دب کر رہ گئی تھیں۔
پتہ نہیں کیوں ان واقعات کے دوران ہمیشہ مجھے ایک ماں بہت یاد آتی ہے۔ میں سبی میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔ میری عدالت میں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک ٹانگ سے لنگڑاتا ہوا نوجوان ایک تعلیم یافتہ بچی کے ساتھ داخل ہوا۔ دونوں میز کی دوسری جانب کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا تم دونوں کے والدین کہاں ہیں۔ لڑکے نے کہا کہ اس کے والدین سندھ میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ بچپن ہی میں گھر سے بھاگ گیا تھا اور اب ان سے کوئی رابطہ نہیں۔ میں نے پوچھا کیا کرتے ہو، کہنے لگا میں ٹانگہ چلاتا ہوں۔ میں نے لڑکی سے والدین کے بارے میں سوال کیا تو وہ سہم گئی اور کہنے لگی انھیں نہیں پتہ اور پلیز آپ انھیں مت بتائیں۔ میں نے پوچھا آپ اس لڑکے کو کیسے جانتی ہو۔
اس نے کہا میرے والد ایک اسکول میں استاد ہیں۔ انھیں مجھے پڑھانے کا بہت شوق ہے۔ انھوں نے میرے اسکول آنے جانے کے لیے سالم ٹانگہ لگوا کے دیا ہے‘ حالانکہ وہ خود کئی میل پیدل جاتے ہیں۔ یہ اس ٹانگے کا کوچوان ہے اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ میرے والدین نہیں مانیں گے۔ اس لیے ہم دونوں کورٹ میرج کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکی یہ سب انتہائی معصومیت اور صاف دلی سے بولے جا رہی تھی اور لڑکے کے چہرے پر ایک کریہہ قسم کی مسکراہٹ تھی۔ میں نے دونوں کو سائیڈ روم میں بٹھایا اور اپنے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر خلیق نذر کیانی سے کہا کہ جلد از جلد لڑکی کے والدین کو یہاں بلائے۔ سبی چھوٹا سا شہر ہے، آدھے گھنٹے میں ایک سفید داڑھی والا استاد سر پر سبی کی گرمی سے بچنے کے لیے بڑی سی چادر لپیٹے اپنی ادھیڑ عمر بیوی کے ساتھ داخل ہوا۔
بیوی کا چہرہ مشقت اور غربت کی تصویر تھا اور ہاتھوں میں مسلسل محنت اور کام سے لائنیں اس طرح پڑگئیں تھیں جیسے پوروں کو کسی نے بلیڈ سے زخم لگائے ہوں اور ان میں میل پھنس گیا ہو۔ میں نے جب ان کو ان کی بیٹی کے ارادوں کے بارے میں بتایا تو وہ دونوں حیرت سے پیلے پڑ گئے۔ باپ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور ہاتھ کپکپانے لگا۔ ماں نے تھوڑا حوصلہ پکڑا اور پوچھا ’’اس نے کر لی شادی‘‘۔ میں نے کہا ابھی نہیں۔ میں نے انھیں اس لیے روکا ہے کہ آپ اسے سمجھائیں یا پھر اپنی مرضی سے شادی کر دیں۔
اس کے بعد جو بیتی وہ آج بھی چشم تصور میں لاتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ باپ میں یہ حوصلہ نہ تھا کہ وہ سامنا کرتا، وہ بیچارا استاد آنسو پونچھتا باہر چلا گیا اور میں نے لڑکی کو ماں کے پاس بلایا۔ لڑکی اسے دیکھتے ہی بھونچکا رہ گئی۔ میرے تسلی دینے پر پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اس کے بعد اس ماں نے جو کیا اس کا تو میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنی گفتگو سے پہلے ہاتھ جوڑے، اس کی آنکھوں سے اب تک رکے ہوئے آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا۔ وہ منتوں ترلوں پر آ گئی۔ اس کی محدود لغت میں بے بسی، لاچاری، مسکینی کے جتنے لفظ تھے اس نے ادا کر دیے۔ کبھی باپ کی سفید داڑھی کا واسطہ دیتی، کبھی بہنوں کا بتاتی کہ وہ لوگوں کو کیا جواب دیں گی۔ ان سے کون بیاہ کرے گا۔
روتے روتے کہنے لگی، میری بات چھوڑو میں ہوں ہی ایک ذلیل عورت، مزید ذلت سہہ لوں گی کہ کیسی بیٹی پیدا کی، کیسی اس کی تربیت کی۔ لیکن تمہارے باپ کا کیا ہو گا۔ وہ کیسے باہر جائے گا، کس کو منہ دکھائے گا۔ کتنا پیار کرتا ہے وہ تم سے، سالم تانگلہ لگوا کے دیا ہے۔ خود پیدل جاتا ہے۔ اس کی ایڑھیاں پھٹ گئیں ہیں، خون رستا ہے ان میں سے، میں روز ویزلین لگاتی ہوں تب اسے نیند آتی ہے۔ لڑکی پر تو جیسے جنون سوار تھا۔ کہنے لگی آپ میری شادی کر دیں۔ ماں کہنے لگی میں کیسے کر دوں، وہ ٹھیک نہیں ہے تمہارے لیے، تمہیں نہیں پتہ ہے، تم بعد میں روؤگی۔
لڑکی گفتگو کے دوران بار بار غصے سے اٹھ کھڑی ہوتی اور ماں انتہائی لجاجت سے اس کی قمیض کا دامن پکڑ کر اسے بٹھا لیتی، روتی، منتیں ترلے کرتی، لیکن لڑکی نہ مانی، بے بس ماں نے بس اتنا کہا کہ تو کر لے شادی لیکن بعد میں ہم دونوں اکٹھے مل کر روئیں گے۔ اس کے بعد وہ باہر گئی، خاوند کو لے کر اندر آئی، دونوں سامنے بیٹھ گئے، باپ روئے جا رہا تھا اور وہ دوپٹے کے پلو سے اپنے خاوند کے آنسو صاف کرتے جا رہی تھی۔ باپ نے کہا میں اس کو منا لیتا ہوں۔ ایسے میں وہ شیرنی بن گئی۔ اس نے کہا ’’میں آپ کو اس کے سامنے ذلیل نہیں ہونے دوں گی‘‘۔ میں نے اور خلیق نذر کیانی نے سمجھایا کہ آپ اس کی شادی اپنے ہاتھوں سے کر دیں۔ دونوں بولے ہم ماں باپ ہیں ہماری اولاد زہر کھانے جا رہی ہو، کنویں میں چھلانگ لگا رہی ہوں تو اس کے اس فعل میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ اس نے لوٹ کے کل ہمارے پاس آنا ہے۔
اسے اندازہ تو ہو کہ اس کی اس غلطی میں ہم شریک نہ تھے۔ بوجھل قدموں سے آنسو پونچھتے وہ دونوں میرے دفتر سے باہر چلے گئے۔ دونوں کو کورٹ میرج کا اجازت نامہ مل گیا۔ شادی ہو گئی۔ لیکن بدنصیب بیٹی کو واپس لوٹ کر ماں کے ساتھ مل کر رونا بھی نصیب نہ ہو سکا۔ وہ لڑکا اسے سندھ لے گیا۔ چند ماہ اس کے ساتھ گزارے اور پھر اسے طلاق دے کر صرف چند ہزار کے عوض فروخت کر دیا۔ بلوچستان اور سندھ کے درمیان یہ عمومی کاروبار ہے۔ جو بلوچ لڑکی کاری ہو جائے اور وہ سردار کے گھر میں پناہ حاصل کر لے تو اسے قتل نہیں کیا جاتا بلکہ سندھ میں بیچ دیا جاتا ہے جس کے آدھے پیسے گھر والوں اور آدھے سردار کے ہوتے ہیں۔ وہ لڑکی جس طرح کئی سالوں بعد اجڑی لٹی پٹی اپنے گھر لوٹی وہ ایک الگ داستان ہے۔
لیکن وہ ماں جو ایک عورت ہے، ایک ایسی عورت جسے تحفظ حقوق نسواں کی کوئی انجمن نہیں پہچانتی۔ ان کے نزدیک حق صرف اسی لڑکی کا ہے جو اس سے بغاوت کر کے اپنی مرضی سے بیاہ رچانا چاہتی ہے۔ یہ لڑکی ان حقوق نسواں کی علمبرداروں کی ہیروئن ہے اور یہ ماں ان تمام انجمنوں کی ولن۔ ایسی ولن جس نے اس ہیروئن کو اس وقت پالا پوسا جب وہ نوماہ اس کے پیٹ میں تھی، اسے اپنے سینے سے لپٹائے اس قابل کیا کہ وہ چل پھر سکے، اسے اس قابل کیا کہ زندگی میں اپنی حیثیت بنا سکے۔ یہ ماں، یہ عورت اور ایسی کتنی عورتیں ہیں جن کی بیٹیاں گھر سے بھاگ کر شادیاں کرتی ہیں اور وہ اپنے ہی گھر میں ایک زندہ لاش بن جاتی ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے ان کے آنسو نہیں تھمتے۔ کبھی طعنوں سے بچنے کے لیے اپنے بچوں اور خاوند کے ساتھ گھر، محلہ اور شہر تک چھوڑ جاتی ہیں۔ ان کے منہ سے تو بددعائیں بھی نہیں نکل پاتیں۔ بس اتنا بول پاتی ہیں، ’’کاش یہ ہمارے گھر پیدا ہی نہ ہوتی، یا پھر پیدا ہوتے ہی مر جاتی‘‘۔ یہ عورت ان تمام حقوق نسواں کی ولن کیوں ہے۔
اس لیے کہ ان سب کے نزدیک شادی ایک جسمانی ملاپ کا نام ہے جو افراد مل کر طے کرتے ہیں اس لیے ان کو اس میں آزادی ہونی چاہیے۔ جب کہ اسلام اسے صرف ملاپ نہیں بلکہ ایک ارادے کے قیام کی بنیاد سمجھتا ہے۔ ایک ایسا ارادہ جس نے ایک کمزور و ناتواں اولاد کو جو نہ بول سکتی ہے، نہ چل سکتی، نہ صحیح طرح دیکھ اور سن سکتی ہے اس کی پرورش کرنا ہے۔ اسے زندگی کے ہر مرحلے میں آگے بڑھنے کے لیے مدد کرنا ہے۔ اس کی جسمانی، نفسیاتی، علمی، معاشی، معاشرتی یہاں تک کہ روحانی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔
جس طرح ہر ادارے کا ایک ہی سربراہ ہوتا ہے دو نہیں ہوتے۔ اس لیے یہاں بھی مرد کو سربراہ بنایا اور یہ ذمہ داری دی کہ اس کی معیشت تمہارے ذمہ ہے تا کہ عورت اولاد کو پالنے، تربیت دینے کے لیے خاص ہو جائے۔ دنیا کا کوئی ادارہ گاڑی کے دو پہیوں کی طرح دو باس نہیں رکھتا۔ مغرب نے اسے گاڑی کے دو پہیے قرار دے کر اسے تباہ کر دیا۔
ہر ادارہ اپنے لیے بہتر افراد کے انتخاب کے لیے دنیا جہان سے مشورہ کرتا ہے۔ لیکن شادی کو دونوں کے صوابدید پر چھوڑ کر جس طرح مغرب نے اپنے اس خاندان کے ادارے کو تباہ و برباد کیا۔ ہم بھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ وہاں بھی ماں بچوں کو آگ میں جلاتی ہے اور ٹیلی فون کر کے اپنے خاوند کو ان کی چیخیں سنواتی ہے کہ لو میں نے تمہارے بچے جلا دیے اور یہاں بھی ایسا ہونے لگاہے۔ اس لیے کہ تحفظ حقوق نسواں کے نعروں نے اس آنسو بہاتی ماں کو دفن کر دیا اور اب اس کی قبر سے جو ماں برآمد ہوئی ہے وہ بیٹیوں کو زندہ بھی جلاتی ہے اور گلے بھی کاٹتی ہے۔ انسانی ترقی کی اس معراج کا میڈل کس خاتون سماجی کارکن کے سینے پر سجاؤں، شاید ہر کوئی اس کی مستحق ہے۔
روح بھی تشنہ رہے گی ریگِ ساحل کی طرح
جسم بھی شوقِ تعلق میں اجڑتا جائے گا
آج سے ٹھیک چوالیس سال قبل جب وہ حلقۂ ارباب ذوق گجرات میں آئی تو مجھے وہ اپنے اس شعر کے بالکل الٹ محسوس ہوئی۔
دیکھ کر جس شخص کو ہنسنا بہت
سر کو اس کے سامنے ڈھکنا بہت
مرحوم شاہد واسطی بتاتے تھے کہ وہ اسے اس زمانے سے جانتے ہیںاسے جب وہ کس کے اوڑھنی لپیٹے مشاعروں میں پڑھنے آتی تھی۔ میں نے جب اس شعر والی غزل سنانے کی فرمائش کی اس نے مجھے ایک سولہ سالہ نوجوان سمجھتے ہوئے اس فرمائش پر ازراہ تفنن کہا ’’تو کیا ڈھک کے دکھاؤں‘‘۔ روایت میں گندھی اور بغاوت کی راہ پر چلتی اس کشور ناہید کے کالم کے یہ فقرے میرے لیے نہ تو چونکا دینے والے ہیں اور نہ ہی حیرت کا سامان۔ البتہ تعجب ہے کہ یہ اتنی دیر کے بعد کیوں ادا ہوئے۔ کالم کا عنوان ہی ایسا ہے ’’ماؤں کی ممتا اور عورتوں کی عزت کہاں گئی‘‘ لکھتی ہیں ’’یہ بے ہودہ گفتگو سن کر میرا بلڈ پریشر ایک دم چڑھ گیا کہ میرا کیا، کسی کا بھی ذہن قبول نہیں کر رہا تھا کہ مائیں بھی ایسی ظالم ہو سکتی ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو گھر بلا کر خود آگ لگا دیں۔‘‘ کتنے سالوں کے بعد اسے وہ ماں یاد آ گئی جس کو تحفظ حقوق نسواں کی تیز رفتار گاڑی کے نیچے کچل دیا گیا اور اس کی چیخیں تک پسند کی شادی، ظالم سماج اور تاریخی جبر کے بلند و بالا نعروں کے اندر دب کر رہ گئی تھیں۔
پتہ نہیں کیوں ان واقعات کے دوران ہمیشہ مجھے ایک ماں بہت یاد آتی ہے۔ میں سبی میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔ میری عدالت میں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک ٹانگ سے لنگڑاتا ہوا نوجوان ایک تعلیم یافتہ بچی کے ساتھ داخل ہوا۔ دونوں میز کی دوسری جانب کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا تم دونوں کے والدین کہاں ہیں۔ لڑکے نے کہا کہ اس کے والدین سندھ میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ بچپن ہی میں گھر سے بھاگ گیا تھا اور اب ان سے کوئی رابطہ نہیں۔ میں نے پوچھا کیا کرتے ہو، کہنے لگا میں ٹانگہ چلاتا ہوں۔ میں نے لڑکی سے والدین کے بارے میں سوال کیا تو وہ سہم گئی اور کہنے لگی انھیں نہیں پتہ اور پلیز آپ انھیں مت بتائیں۔ میں نے پوچھا آپ اس لڑکے کو کیسے جانتی ہو۔
اس نے کہا میرے والد ایک اسکول میں استاد ہیں۔ انھیں مجھے پڑھانے کا بہت شوق ہے۔ انھوں نے میرے اسکول آنے جانے کے لیے سالم ٹانگہ لگوا کے دیا ہے‘ حالانکہ وہ خود کئی میل پیدل جاتے ہیں۔ یہ اس ٹانگے کا کوچوان ہے اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ میرے والدین نہیں مانیں گے۔ اس لیے ہم دونوں کورٹ میرج کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکی یہ سب انتہائی معصومیت اور صاف دلی سے بولے جا رہی تھی اور لڑکے کے چہرے پر ایک کریہہ قسم کی مسکراہٹ تھی۔ میں نے دونوں کو سائیڈ روم میں بٹھایا اور اپنے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر خلیق نذر کیانی سے کہا کہ جلد از جلد لڑکی کے والدین کو یہاں بلائے۔ سبی چھوٹا سا شہر ہے، آدھے گھنٹے میں ایک سفید داڑھی والا استاد سر پر سبی کی گرمی سے بچنے کے لیے بڑی سی چادر لپیٹے اپنی ادھیڑ عمر بیوی کے ساتھ داخل ہوا۔
بیوی کا چہرہ مشقت اور غربت کی تصویر تھا اور ہاتھوں میں مسلسل محنت اور کام سے لائنیں اس طرح پڑگئیں تھیں جیسے پوروں کو کسی نے بلیڈ سے زخم لگائے ہوں اور ان میں میل پھنس گیا ہو۔ میں نے جب ان کو ان کی بیٹی کے ارادوں کے بارے میں بتایا تو وہ دونوں حیرت سے پیلے پڑ گئے۔ باپ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور ہاتھ کپکپانے لگا۔ ماں نے تھوڑا حوصلہ پکڑا اور پوچھا ’’اس نے کر لی شادی‘‘۔ میں نے کہا ابھی نہیں۔ میں نے انھیں اس لیے روکا ہے کہ آپ اسے سمجھائیں یا پھر اپنی مرضی سے شادی کر دیں۔
اس کے بعد جو بیتی وہ آج بھی چشم تصور میں لاتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ باپ میں یہ حوصلہ نہ تھا کہ وہ سامنا کرتا، وہ بیچارا استاد آنسو پونچھتا باہر چلا گیا اور میں نے لڑکی کو ماں کے پاس بلایا۔ لڑکی اسے دیکھتے ہی بھونچکا رہ گئی۔ میرے تسلی دینے پر پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اس کے بعد اس ماں نے جو کیا اس کا تو میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنی گفتگو سے پہلے ہاتھ جوڑے، اس کی آنکھوں سے اب تک رکے ہوئے آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا۔ وہ منتوں ترلوں پر آ گئی۔ اس کی محدود لغت میں بے بسی، لاچاری، مسکینی کے جتنے لفظ تھے اس نے ادا کر دیے۔ کبھی باپ کی سفید داڑھی کا واسطہ دیتی، کبھی بہنوں کا بتاتی کہ وہ لوگوں کو کیا جواب دیں گی۔ ان سے کون بیاہ کرے گا۔
روتے روتے کہنے لگی، میری بات چھوڑو میں ہوں ہی ایک ذلیل عورت، مزید ذلت سہہ لوں گی کہ کیسی بیٹی پیدا کی، کیسی اس کی تربیت کی۔ لیکن تمہارے باپ کا کیا ہو گا۔ وہ کیسے باہر جائے گا، کس کو منہ دکھائے گا۔ کتنا پیار کرتا ہے وہ تم سے، سالم تانگلہ لگوا کے دیا ہے۔ خود پیدل جاتا ہے۔ اس کی ایڑھیاں پھٹ گئیں ہیں، خون رستا ہے ان میں سے، میں روز ویزلین لگاتی ہوں تب اسے نیند آتی ہے۔ لڑکی پر تو جیسے جنون سوار تھا۔ کہنے لگی آپ میری شادی کر دیں۔ ماں کہنے لگی میں کیسے کر دوں، وہ ٹھیک نہیں ہے تمہارے لیے، تمہیں نہیں پتہ ہے، تم بعد میں روؤگی۔
لڑکی گفتگو کے دوران بار بار غصے سے اٹھ کھڑی ہوتی اور ماں انتہائی لجاجت سے اس کی قمیض کا دامن پکڑ کر اسے بٹھا لیتی، روتی، منتیں ترلے کرتی، لیکن لڑکی نہ مانی، بے بس ماں نے بس اتنا کہا کہ تو کر لے شادی لیکن بعد میں ہم دونوں اکٹھے مل کر روئیں گے۔ اس کے بعد وہ باہر گئی، خاوند کو لے کر اندر آئی، دونوں سامنے بیٹھ گئے، باپ روئے جا رہا تھا اور وہ دوپٹے کے پلو سے اپنے خاوند کے آنسو صاف کرتے جا رہی تھی۔ باپ نے کہا میں اس کو منا لیتا ہوں۔ ایسے میں وہ شیرنی بن گئی۔ اس نے کہا ’’میں آپ کو اس کے سامنے ذلیل نہیں ہونے دوں گی‘‘۔ میں نے اور خلیق نذر کیانی نے سمجھایا کہ آپ اس کی شادی اپنے ہاتھوں سے کر دیں۔ دونوں بولے ہم ماں باپ ہیں ہماری اولاد زہر کھانے جا رہی ہو، کنویں میں چھلانگ لگا رہی ہوں تو اس کے اس فعل میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ اس نے لوٹ کے کل ہمارے پاس آنا ہے۔
اسے اندازہ تو ہو کہ اس کی اس غلطی میں ہم شریک نہ تھے۔ بوجھل قدموں سے آنسو پونچھتے وہ دونوں میرے دفتر سے باہر چلے گئے۔ دونوں کو کورٹ میرج کا اجازت نامہ مل گیا۔ شادی ہو گئی۔ لیکن بدنصیب بیٹی کو واپس لوٹ کر ماں کے ساتھ مل کر رونا بھی نصیب نہ ہو سکا۔ وہ لڑکا اسے سندھ لے گیا۔ چند ماہ اس کے ساتھ گزارے اور پھر اسے طلاق دے کر صرف چند ہزار کے عوض فروخت کر دیا۔ بلوچستان اور سندھ کے درمیان یہ عمومی کاروبار ہے۔ جو بلوچ لڑکی کاری ہو جائے اور وہ سردار کے گھر میں پناہ حاصل کر لے تو اسے قتل نہیں کیا جاتا بلکہ سندھ میں بیچ دیا جاتا ہے جس کے آدھے پیسے گھر والوں اور آدھے سردار کے ہوتے ہیں۔ وہ لڑکی جس طرح کئی سالوں بعد اجڑی لٹی پٹی اپنے گھر لوٹی وہ ایک الگ داستان ہے۔
لیکن وہ ماں جو ایک عورت ہے، ایک ایسی عورت جسے تحفظ حقوق نسواں کی کوئی انجمن نہیں پہچانتی۔ ان کے نزدیک حق صرف اسی لڑکی کا ہے جو اس سے بغاوت کر کے اپنی مرضی سے بیاہ رچانا چاہتی ہے۔ یہ لڑکی ان حقوق نسواں کی علمبرداروں کی ہیروئن ہے اور یہ ماں ان تمام انجمنوں کی ولن۔ ایسی ولن جس نے اس ہیروئن کو اس وقت پالا پوسا جب وہ نوماہ اس کے پیٹ میں تھی، اسے اپنے سینے سے لپٹائے اس قابل کیا کہ وہ چل پھر سکے، اسے اس قابل کیا کہ زندگی میں اپنی حیثیت بنا سکے۔ یہ ماں، یہ عورت اور ایسی کتنی عورتیں ہیں جن کی بیٹیاں گھر سے بھاگ کر شادیاں کرتی ہیں اور وہ اپنے ہی گھر میں ایک زندہ لاش بن جاتی ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے ان کے آنسو نہیں تھمتے۔ کبھی طعنوں سے بچنے کے لیے اپنے بچوں اور خاوند کے ساتھ گھر، محلہ اور شہر تک چھوڑ جاتی ہیں۔ ان کے منہ سے تو بددعائیں بھی نہیں نکل پاتیں۔ بس اتنا بول پاتی ہیں، ’’کاش یہ ہمارے گھر پیدا ہی نہ ہوتی، یا پھر پیدا ہوتے ہی مر جاتی‘‘۔ یہ عورت ان تمام حقوق نسواں کی ولن کیوں ہے۔
اس لیے کہ ان سب کے نزدیک شادی ایک جسمانی ملاپ کا نام ہے جو افراد مل کر طے کرتے ہیں اس لیے ان کو اس میں آزادی ہونی چاہیے۔ جب کہ اسلام اسے صرف ملاپ نہیں بلکہ ایک ارادے کے قیام کی بنیاد سمجھتا ہے۔ ایک ایسا ارادہ جس نے ایک کمزور و ناتواں اولاد کو جو نہ بول سکتی ہے، نہ چل سکتی، نہ صحیح طرح دیکھ اور سن سکتی ہے اس کی پرورش کرنا ہے۔ اسے زندگی کے ہر مرحلے میں آگے بڑھنے کے لیے مدد کرنا ہے۔ اس کی جسمانی، نفسیاتی، علمی، معاشی، معاشرتی یہاں تک کہ روحانی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔
جس طرح ہر ادارے کا ایک ہی سربراہ ہوتا ہے دو نہیں ہوتے۔ اس لیے یہاں بھی مرد کو سربراہ بنایا اور یہ ذمہ داری دی کہ اس کی معیشت تمہارے ذمہ ہے تا کہ عورت اولاد کو پالنے، تربیت دینے کے لیے خاص ہو جائے۔ دنیا کا کوئی ادارہ گاڑی کے دو پہیوں کی طرح دو باس نہیں رکھتا۔ مغرب نے اسے گاڑی کے دو پہیے قرار دے کر اسے تباہ کر دیا۔
ہر ادارہ اپنے لیے بہتر افراد کے انتخاب کے لیے دنیا جہان سے مشورہ کرتا ہے۔ لیکن شادی کو دونوں کے صوابدید پر چھوڑ کر جس طرح مغرب نے اپنے اس خاندان کے ادارے کو تباہ و برباد کیا۔ ہم بھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ وہاں بھی ماں بچوں کو آگ میں جلاتی ہے اور ٹیلی فون کر کے اپنے خاوند کو ان کی چیخیں سنواتی ہے کہ لو میں نے تمہارے بچے جلا دیے اور یہاں بھی ایسا ہونے لگاہے۔ اس لیے کہ تحفظ حقوق نسواں کے نعروں نے اس آنسو بہاتی ماں کو دفن کر دیا اور اب اس کی قبر سے جو ماں برآمد ہوئی ہے وہ بیٹیوں کو زندہ بھی جلاتی ہے اور گلے بھی کاٹتی ہے۔ انسانی ترقی کی اس معراج کا میڈل کس خاتون سماجی کارکن کے سینے پر سجاؤں، شاید ہر کوئی اس کی مستحق ہے۔
Friday, June 17, 2016
مولوی اور معاشرہ | 17 جون 2016

شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔ شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔
اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831ء میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک انھی مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولائت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنائت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔ مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔
جن کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔
پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔
ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشنی رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔
پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔
پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوش جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔
اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔
اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون عالم دین اور پابند شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔ شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔
اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831ء میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک انھی مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولائت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنائت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔ مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔
جن کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔
پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔
ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشنی رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔
پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔
پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوش جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔
اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔
اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون عالم دین اور پابند شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے۔
Monday, June 13, 2016
اصل المیہ کیا ہے | 13 جون 2016

آج سے ٹھیک چالیس سال قبل جب میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کرنے کے لیے داخلہ لیا تو دوسرے سمیسٹر میں نفسیاتی امراض کا مضمون میرے لیے خصوصی دلچسپی رکھتا تھا‘ میں اس دوران ایک طالب علم ٹرینی کی حیثیت سے ہفتے میں تین دن ذہنی مریضوں کی بحالی کے ادارے فاؤنٹین ہاؤس میں بھی ان امراض کے علاج کی تربیت لیتا تھا۔ اس مضمون کے لیے James c colman (جیمزسی کول مین) کی کتاب Abnormal Psychology & Modren life ایک نسخہ کیمیا تھی۔ اس کے اس وقت چار ایڈیشن آ چکے تھے اور چوتھے ایڈیشن کی لائبریری میں صرف ایک کاپی تھی جسے ڈیپارٹمنٹ والوں نے ساتھ لیجانے پر پابندی لگا رکھی تھی۔
چونکہ کتاب امریکی معاشرے کے پس منظر میں لکھی گئی تھی اس لیے اس میں دیے گئے تمام شواہد بھی وہیں کے تھے۔ یہ کتاب دراصل امریکی یونیورسٹیوں کے لیے تحریر کی گئی تھی اس لیے اس میں نفسیاتی مسائل کی وجوہات‘ علامات اور علاج کے طریقے سب اسی معاشرے کے حوالے سے بتائے گئے تھے۔ چونکہ پاکستان میں آج تک کسی نے نصاب تعلیم پر کوئی محنت نہیں کی اس لیے ہم سب بھی مغرب کی ٹیکسٹ بکوں کو پڑھ کر امتحان دینے پر مجبور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں سے جو نفسیات دان، معیشت دان، معاشریات کا عالم یا بشریات و سیاسیات کا ماہراپنے اپنے مضمون سے ایم اے کر کے پاکستانی معاشرے میں کام کرنے لگا ہے تو اسے مغرب کے ہر زوال و کمال کا علم ہو گا‘ ہر معاشرتی اور خاندانی مسئلے کی آگاہی ہو گی لیکن وہ اپنے لوگوں کے ماحول‘ معاشرت حتیٰ کہ خاندانی ماحول اور اخلاقی اقدار سے بھی نا آشنا ہو گا۔
آپ حیران ہوں گے کہ ذہنی مریضوں کی حالت کو جانچنے کے لیے اس وقت اردو میں ایک ہی ٹسٹ استعمال ہوتا تھا MMPI جسے دراصل میرے استاد اور بعدازاں دوست ڈاکٹر لئیق مرزا نے ترجمے اور تبدیلی کے بعد ترتیب دیا تھا۔ یہ ایک 499 چھوٹے چھوٹے سوالات پر مشتمل ٹیسٹ ہے جو کسی ذہنی مریض کی شخصیت کو معمول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں مینی سوٹا یونیورسٹی میں تخلیق کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سارے کا سارا علم اور سب کے سب ٹسٹ مغربی اور امریکی طرز زندگی کے مطابق دستیاب تھے۔ فاؤنٹین ہاؤس کے ڈاکٹر رشید چوہدری ڈاکٹر لئیق مرزا اور پھر بعدازاں عظیم استاد اور ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد اجمل جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔
ان لوگوں کا ساتھ میسر نہ ہوتا تو شاید میرا علم بھی مغرب کی اسی معاشرت کو ایک آئیڈیل معاشرت کے حوالے سے اپنے ذہن میں بساتا اور ہر مرض کی ویسی ہی وجوہات ڈھونڈتا جیسی وہاں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ پڑھائی کے دوران کول مین کی کتاب کے چوتھے ایڈیشن کے ورق کے ورق آج تک میرے دماغ سے چپکے ہوئے ہیں۔ اس میں ایک باب گھریلو تشدد پر تھا جس میں اس زمانے کے درج اعدادوشمار اس قدر خوفناک تھے کہ روح کانپ اٹھتی تھی۔کول مین کی اس کتاب میں گھریلو تشدد کا شکار چند بچوں کی تصویریں دی ہوئی تھیں اور ان ظالم ماؤں کے بھی چہرے کے کلوزاپ تھے جنہوں نے اپنے بچوں پر تشدد کیا یا انھیں مار دیا تھا۔
چونکہ یہ کتاب کیس ہسٹریوں کا ذخیرہ تھی اس لیے تشدد کے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات تھے کہ دوسرا واقعہ نہیں پڑھا جاتا تھا۔کسی ماں نے اپنے بچوں کو زور سے گھمایا اور دیوار سے پٹخ دیا‘ کسی نے اپنی تین بیٹیوں کو گاڑی میں ڈالا‘ شیشے بند کیے اور گاڑی دریا میں پھینک دی۔کسی نے بچے کو اوون میں رکھ کر جلا دیا‘ تو کسی نے واشنگ مشین میں ڈال کر گھما دیا۔ چالیس سال قبل میں سوچتا تھا کہ کوئی معاشرہ اس قدر کریہہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہاں ماں جیسے محبت کرنے والے رشتے کا یہ روپ سامنے آ جائے کہ دس لاکھ کے قریب بچے اسپتال میں داخل ہوں اور ان میں 25 فیصد تشدد کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جائیں اور تشدد کرنے والی نوے فیصد مائیں ہوں۔ میرے جیسا دیہاتی ماحول میں پلا بڑھا شخص جس نے ماں کا صرف اور صرف محبت کا روپ دیکھا ہو اس کے لیے یہ سب یقین کرنا بہت مشکل تھا۔
لیکن گزشتہ تین دن سے مجھے اس خبر کی صداقت پر تو یقین ہے لیکن اس کی ہولناکی پر یقین کرنے کو جی نہیں مان رہا۔ ایک ماں نے اپنی بیٹی کو زندہ جلا دیا اور پھر کس قدر اعتماد کے ساتھ کیمروں کے سامنے یہ کہا کہ مجھے اس پر ذرا برابر بھی ملال نہیں۔ بیٹیوں کو ایسے معاملات میں قتل کرنے کے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ماں کا ایسا رویہ نہیں ہوتا۔ پسند کی شادی پر باپ بھائی ناراض ہوتے ہیں، غصے کے عالم میں قتل بھی کرنے نکل پڑتے ہیں لیکن مائیں عموماً بیٹی کے ساتھ ہمدردی کے عالم میں ہوتی ہیں۔ وہ ایسی بیٹی سے چھپ کے مل لیتی ہے۔
اسے سمجھاتی ہے، اس کے لیے خاموشی سے دعائیں بھی کرتی ہے۔ یہ سراپا رحمت رشتہ اسقدر ظالم کیسے ہوگیا اور پھر غصہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ ہر کوئی اس واقعہ کی سنگینی پر گفتگو کررہا ہے۔ ریٹنگ کے جنون میں پاگل ٹیلی ویژن والے اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ متنازعہ بناکر لوگوں میں جو ہیجان پیدا کررہے ہیں، ہر طبقہ فکر کا شخص گفتگو کررہا ہے اور اپنے طبقے کا دفاع بھی لیکن کوئی واقعہ کی سنگینی اور اس اہم ترین موضوع پر بات نہیں کررہا کہ وہ کون سے حالات تھے جس نے ایک ماں جیسے محبت بھرے رشتے کو ظالم بنادیا۔ دنیا میں جہاں بھی قوموں نے ایسے مسائل دیکھے وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور پھر اس پر ماہرین نفسیات، سماجیات یہاں تک کہ ان کے مذہبی اور روحانی افراد نے بھی اس طرح کے ہیجان کا علاج کرنے کی کوشش کی۔ ہیجان اور اضطراب کو کم کرنے کے لیے مغرب میں جس طرح مراقبہ جسے Meditation کہتے ہیں وہ مقبول ہوا اور یوگا جیسی وزشیں عام ہوئیں تو یہ ان کی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کی علامت تھی۔
لیکن ہمارے ہاں تو خاتون سماجی کارکنوں سے لے کر اینکرپرسن اور آزادی نسواں کے علمبرداروں تک ہر کسی کو بحث کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے فرصت نہیں اور کسی کو اندازہ نہیں کہ معاشرے میں ہیجان اور اضطراب دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس سے پہلے کبھی زندہ جلائے جانے کے واقعات نہیں ہوئے تھے۔ مائیں بچوں کو زہر نہیں دیتی تھیں۔ ایسے اگر واقعات تھے بھی تو بہت کم۔ لیکن لگتا ہے کہ جس راستے پر آج سے چالیس سال پہلے امریکی معاشرہ چل پڑا تھا اور بدترین گھریلو تشدد کا شکار ہوا۔ ہم آج اس مقام پر آپہنچے ہیں۔
دونوں کا مرض ایک ہے لیکن وجوہات مختلف، آغاز دونوں معاشروں کا ایک جیسا ہے۔ آپ مغربی معاشرہ اٹھالیں۔ آپ کو خاندانی ہیجان و اضطراب اس وقت آغاز پاتا ہوا ملے گا جب نسوانیت Feminism کی تحریک نے خاندان کے ادارے کو کچل کر رکھ دیا۔ کارپوریٹ میڈیا نے عورت کو ایک پراڈکٹ کی حیثیت سے متعارف کرایا تو اس نے ماں، بہن، بیٹی یا بہو کی جگہ ’’کیریئر وومن‘‘ بننے پر ترجیح دی۔
اب یہاں وجوہات ہم سے مختلف ہوجاتی ہیں۔ وہاں خاندان مکمل طور پر ٹوٹ گیا اور پھر شادی صرف چند ماہ یا سال کا کھیل بن کر رہ گئی۔ بیرون از شادی تعلقات نے زندگی میں زہر گھولا تو کہیں معاشی دوڑ نے گھر کو جہنم بنایا۔ مرد صرف مرد بن گیا اور عورت صرف عورت جن کا زندگی کا مقصد آگے بڑھنا، کامیاب ہونا اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا تھا۔ قربانی کا تصور خاندان کی زندگی سے خارج ہوگیا۔ ایسے میں جس کو غصہ آیا، ہیجان پیدا ہوا اس کا پہلا نشانہ معصوم بچے یا کمزور عورتیں تھیں۔ ہمارے ہاں صرف یہ فرق ہے کہ خاندانی نظام سسکتا ہوا چل رہا ہے۔
اگرچہ کے اس کے چند دھاگے ہی بچے ہیں جن سے یہ نظام جڑا ہوا ہے۔ اس نظام کو روز ایک کاری ضرب لگائی جاتی ہے۔ کبھی سول سوسائٹی لگاتی ہے تو کبھی ہمارا نصاب تعلیم اور آخری وار میڈیا کا ہوتا ہے۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور حقوق نسواں کے نزدیک وہ لڑکی تو ایک عورت ہے جو ماں باپ کی مرضی کے خلاف گھر سے بھاگ کر شادی کرتی ہیں لیکن ان کے نزدیک وہ ماں ایک عورت نہیں کہ جو اس دن دنیا کے سامنے ایک اذیت ناک موت مرجاتی ہے جب اس کی بیٹی ایسا کرتی ہے۔ وہ محلے میں نکل نہیں پاتی، برادری کا سامنا نہیں کرپاتی۔ اس کی آنکھوں میں صرف آنسو ہوتے ہیں جو مسلسل بہے چلے جاتے ہیں۔ اس کی بددعاؤں میں کیسے کیسے فقرے ہوتے ہیں کہ کاش یہ پیدا ہوتے ہی مرجاتی۔ یہاں نفسیات کا وہ اصول سامنے آتا ہے جسے انسانی ذات کا شعوری Defence Machanism کہتے ہیں۔ مثلاً آدمی اپنے آپ کو تسلیاں دے کر زندہ رکھ لیتا ہے۔
مثلاً کونسا میری بیٹی اکیلی ہے اس جرم میں، چلو خوش تو ہے، لوگ تو کہتے ہی رہتے ہیں۔ انسان ایسی تسلیاں ہر اس فعل کے بعد اپنے آپ کو دیتا ہے جسے معاشرے میں اچھا نہ سمجھا جائے۔ مثلاً میں شراب پیتا ہوں غریبوں کا خون تو نہیں پیتا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو بھلا کر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن چند لوگ یہ دباؤ برداشت نہیں کرپاتے، وہ یا تو خودکشی کرلیتے ہیں یا کسی ایسے شخص کو قتل کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر یہ معاشرتی دباؤ آیا۔ عموماً یہ ہوتا تھا کہ ماں کی محبت اس ہیجان اور اضطراب پر غالب آجاتی تھی۔ لیکن اگر معاملہ الٹ جائے اور ماں ہی اس جرم کے ارتکاب کا آغاز کردے تو یاد رکھو یہ معاملہ ٹاک شوز اور سوسائٹی کا نہیں۔ یہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ اس لیے کہ اب یہ معاملہ ان معاشرتی اور خاندانی محبتوں کے بند عبور کرچکا۔ اس دیوار محبت کو توڑ چکا جو رشتوں نے قائم کی تھی۔
اب یہ ماں ایک فرد ہے، ایک مضطرب اور پر ہیجان فرد، ایک ماں، بیٹی، بیوی یا بہو نہیں۔ ایک عورت ہے، صرف عورت۔ جب معاشروں پر یہ وقت آجائے تو پھر انھیں تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ ان کے بازار خوبصورت، دکانیں رنگین، شہر پر رونق ہوتے ہیں لیکن گھر جہنم کی طرح بے سکون، بے مروت اور بے مہر ہوجاتے ہیں۔
چونکہ کتاب امریکی معاشرے کے پس منظر میں لکھی گئی تھی اس لیے اس میں دیے گئے تمام شواہد بھی وہیں کے تھے۔ یہ کتاب دراصل امریکی یونیورسٹیوں کے لیے تحریر کی گئی تھی اس لیے اس میں نفسیاتی مسائل کی وجوہات‘ علامات اور علاج کے طریقے سب اسی معاشرے کے حوالے سے بتائے گئے تھے۔ چونکہ پاکستان میں آج تک کسی نے نصاب تعلیم پر کوئی محنت نہیں کی اس لیے ہم سب بھی مغرب کی ٹیکسٹ بکوں کو پڑھ کر امتحان دینے پر مجبور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں سے جو نفسیات دان، معیشت دان، معاشریات کا عالم یا بشریات و سیاسیات کا ماہراپنے اپنے مضمون سے ایم اے کر کے پاکستانی معاشرے میں کام کرنے لگا ہے تو اسے مغرب کے ہر زوال و کمال کا علم ہو گا‘ ہر معاشرتی اور خاندانی مسئلے کی آگاہی ہو گی لیکن وہ اپنے لوگوں کے ماحول‘ معاشرت حتیٰ کہ خاندانی ماحول اور اخلاقی اقدار سے بھی نا آشنا ہو گا۔
آپ حیران ہوں گے کہ ذہنی مریضوں کی حالت کو جانچنے کے لیے اس وقت اردو میں ایک ہی ٹسٹ استعمال ہوتا تھا MMPI جسے دراصل میرے استاد اور بعدازاں دوست ڈاکٹر لئیق مرزا نے ترجمے اور تبدیلی کے بعد ترتیب دیا تھا۔ یہ ایک 499 چھوٹے چھوٹے سوالات پر مشتمل ٹیسٹ ہے جو کسی ذہنی مریض کی شخصیت کو معمول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں مینی سوٹا یونیورسٹی میں تخلیق کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سارے کا سارا علم اور سب کے سب ٹسٹ مغربی اور امریکی طرز زندگی کے مطابق دستیاب تھے۔ فاؤنٹین ہاؤس کے ڈاکٹر رشید چوہدری ڈاکٹر لئیق مرزا اور پھر بعدازاں عظیم استاد اور ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد اجمل جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔
ان لوگوں کا ساتھ میسر نہ ہوتا تو شاید میرا علم بھی مغرب کی اسی معاشرت کو ایک آئیڈیل معاشرت کے حوالے سے اپنے ذہن میں بساتا اور ہر مرض کی ویسی ہی وجوہات ڈھونڈتا جیسی وہاں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ پڑھائی کے دوران کول مین کی کتاب کے چوتھے ایڈیشن کے ورق کے ورق آج تک میرے دماغ سے چپکے ہوئے ہیں۔ اس میں ایک باب گھریلو تشدد پر تھا جس میں اس زمانے کے درج اعدادوشمار اس قدر خوفناک تھے کہ روح کانپ اٹھتی تھی۔کول مین کی اس کتاب میں گھریلو تشدد کا شکار چند بچوں کی تصویریں دی ہوئی تھیں اور ان ظالم ماؤں کے بھی چہرے کے کلوزاپ تھے جنہوں نے اپنے بچوں پر تشدد کیا یا انھیں مار دیا تھا۔
چونکہ یہ کتاب کیس ہسٹریوں کا ذخیرہ تھی اس لیے تشدد کے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات تھے کہ دوسرا واقعہ نہیں پڑھا جاتا تھا۔کسی ماں نے اپنے بچوں کو زور سے گھمایا اور دیوار سے پٹخ دیا‘ کسی نے اپنی تین بیٹیوں کو گاڑی میں ڈالا‘ شیشے بند کیے اور گاڑی دریا میں پھینک دی۔کسی نے بچے کو اوون میں رکھ کر جلا دیا‘ تو کسی نے واشنگ مشین میں ڈال کر گھما دیا۔ چالیس سال قبل میں سوچتا تھا کہ کوئی معاشرہ اس قدر کریہہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہاں ماں جیسے محبت کرنے والے رشتے کا یہ روپ سامنے آ جائے کہ دس لاکھ کے قریب بچے اسپتال میں داخل ہوں اور ان میں 25 فیصد تشدد کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جائیں اور تشدد کرنے والی نوے فیصد مائیں ہوں۔ میرے جیسا دیہاتی ماحول میں پلا بڑھا شخص جس نے ماں کا صرف اور صرف محبت کا روپ دیکھا ہو اس کے لیے یہ سب یقین کرنا بہت مشکل تھا۔
لیکن گزشتہ تین دن سے مجھے اس خبر کی صداقت پر تو یقین ہے لیکن اس کی ہولناکی پر یقین کرنے کو جی نہیں مان رہا۔ ایک ماں نے اپنی بیٹی کو زندہ جلا دیا اور پھر کس قدر اعتماد کے ساتھ کیمروں کے سامنے یہ کہا کہ مجھے اس پر ذرا برابر بھی ملال نہیں۔ بیٹیوں کو ایسے معاملات میں قتل کرنے کے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ماں کا ایسا رویہ نہیں ہوتا۔ پسند کی شادی پر باپ بھائی ناراض ہوتے ہیں، غصے کے عالم میں قتل بھی کرنے نکل پڑتے ہیں لیکن مائیں عموماً بیٹی کے ساتھ ہمدردی کے عالم میں ہوتی ہیں۔ وہ ایسی بیٹی سے چھپ کے مل لیتی ہے۔
اسے سمجھاتی ہے، اس کے لیے خاموشی سے دعائیں بھی کرتی ہے۔ یہ سراپا رحمت رشتہ اسقدر ظالم کیسے ہوگیا اور پھر غصہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ ہر کوئی اس واقعہ کی سنگینی پر گفتگو کررہا ہے۔ ریٹنگ کے جنون میں پاگل ٹیلی ویژن والے اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ متنازعہ بناکر لوگوں میں جو ہیجان پیدا کررہے ہیں، ہر طبقہ فکر کا شخص گفتگو کررہا ہے اور اپنے طبقے کا دفاع بھی لیکن کوئی واقعہ کی سنگینی اور اس اہم ترین موضوع پر بات نہیں کررہا کہ وہ کون سے حالات تھے جس نے ایک ماں جیسے محبت بھرے رشتے کو ظالم بنادیا۔ دنیا میں جہاں بھی قوموں نے ایسے مسائل دیکھے وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور پھر اس پر ماہرین نفسیات، سماجیات یہاں تک کہ ان کے مذہبی اور روحانی افراد نے بھی اس طرح کے ہیجان کا علاج کرنے کی کوشش کی۔ ہیجان اور اضطراب کو کم کرنے کے لیے مغرب میں جس طرح مراقبہ جسے Meditation کہتے ہیں وہ مقبول ہوا اور یوگا جیسی وزشیں عام ہوئیں تو یہ ان کی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کی علامت تھی۔
لیکن ہمارے ہاں تو خاتون سماجی کارکنوں سے لے کر اینکرپرسن اور آزادی نسواں کے علمبرداروں تک ہر کسی کو بحث کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے فرصت نہیں اور کسی کو اندازہ نہیں کہ معاشرے میں ہیجان اور اضطراب دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس سے پہلے کبھی زندہ جلائے جانے کے واقعات نہیں ہوئے تھے۔ مائیں بچوں کو زہر نہیں دیتی تھیں۔ ایسے اگر واقعات تھے بھی تو بہت کم۔ لیکن لگتا ہے کہ جس راستے پر آج سے چالیس سال پہلے امریکی معاشرہ چل پڑا تھا اور بدترین گھریلو تشدد کا شکار ہوا۔ ہم آج اس مقام پر آپہنچے ہیں۔
دونوں کا مرض ایک ہے لیکن وجوہات مختلف، آغاز دونوں معاشروں کا ایک جیسا ہے۔ آپ مغربی معاشرہ اٹھالیں۔ آپ کو خاندانی ہیجان و اضطراب اس وقت آغاز پاتا ہوا ملے گا جب نسوانیت Feminism کی تحریک نے خاندان کے ادارے کو کچل کر رکھ دیا۔ کارپوریٹ میڈیا نے عورت کو ایک پراڈکٹ کی حیثیت سے متعارف کرایا تو اس نے ماں، بہن، بیٹی یا بہو کی جگہ ’’کیریئر وومن‘‘ بننے پر ترجیح دی۔
اب یہاں وجوہات ہم سے مختلف ہوجاتی ہیں۔ وہاں خاندان مکمل طور پر ٹوٹ گیا اور پھر شادی صرف چند ماہ یا سال کا کھیل بن کر رہ گئی۔ بیرون از شادی تعلقات نے زندگی میں زہر گھولا تو کہیں معاشی دوڑ نے گھر کو جہنم بنایا۔ مرد صرف مرد بن گیا اور عورت صرف عورت جن کا زندگی کا مقصد آگے بڑھنا، کامیاب ہونا اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا تھا۔ قربانی کا تصور خاندان کی زندگی سے خارج ہوگیا۔ ایسے میں جس کو غصہ آیا، ہیجان پیدا ہوا اس کا پہلا نشانہ معصوم بچے یا کمزور عورتیں تھیں۔ ہمارے ہاں صرف یہ فرق ہے کہ خاندانی نظام سسکتا ہوا چل رہا ہے۔
اگرچہ کے اس کے چند دھاگے ہی بچے ہیں جن سے یہ نظام جڑا ہوا ہے۔ اس نظام کو روز ایک کاری ضرب لگائی جاتی ہے۔ کبھی سول سوسائٹی لگاتی ہے تو کبھی ہمارا نصاب تعلیم اور آخری وار میڈیا کا ہوتا ہے۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور حقوق نسواں کے نزدیک وہ لڑکی تو ایک عورت ہے جو ماں باپ کی مرضی کے خلاف گھر سے بھاگ کر شادی کرتی ہیں لیکن ان کے نزدیک وہ ماں ایک عورت نہیں کہ جو اس دن دنیا کے سامنے ایک اذیت ناک موت مرجاتی ہے جب اس کی بیٹی ایسا کرتی ہے۔ وہ محلے میں نکل نہیں پاتی، برادری کا سامنا نہیں کرپاتی۔ اس کی آنکھوں میں صرف آنسو ہوتے ہیں جو مسلسل بہے چلے جاتے ہیں۔ اس کی بددعاؤں میں کیسے کیسے فقرے ہوتے ہیں کہ کاش یہ پیدا ہوتے ہی مرجاتی۔ یہاں نفسیات کا وہ اصول سامنے آتا ہے جسے انسانی ذات کا شعوری Defence Machanism کہتے ہیں۔ مثلاً آدمی اپنے آپ کو تسلیاں دے کر زندہ رکھ لیتا ہے۔
مثلاً کونسا میری بیٹی اکیلی ہے اس جرم میں، چلو خوش تو ہے، لوگ تو کہتے ہی رہتے ہیں۔ انسان ایسی تسلیاں ہر اس فعل کے بعد اپنے آپ کو دیتا ہے جسے معاشرے میں اچھا نہ سمجھا جائے۔ مثلاً میں شراب پیتا ہوں غریبوں کا خون تو نہیں پیتا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو بھلا کر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن چند لوگ یہ دباؤ برداشت نہیں کرپاتے، وہ یا تو خودکشی کرلیتے ہیں یا کسی ایسے شخص کو قتل کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر یہ معاشرتی دباؤ آیا۔ عموماً یہ ہوتا تھا کہ ماں کی محبت اس ہیجان اور اضطراب پر غالب آجاتی تھی۔ لیکن اگر معاملہ الٹ جائے اور ماں ہی اس جرم کے ارتکاب کا آغاز کردے تو یاد رکھو یہ معاملہ ٹاک شوز اور سوسائٹی کا نہیں۔ یہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ اس لیے کہ اب یہ معاملہ ان معاشرتی اور خاندانی محبتوں کے بند عبور کرچکا۔ اس دیوار محبت کو توڑ چکا جو رشتوں نے قائم کی تھی۔
اب یہ ماں ایک فرد ہے، ایک مضطرب اور پر ہیجان فرد، ایک ماں، بیٹی، بیوی یا بہو نہیں۔ ایک عورت ہے، صرف عورت۔ جب معاشروں پر یہ وقت آجائے تو پھر انھیں تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ ان کے بازار خوبصورت، دکانیں رنگین، شہر پر رونق ہوتے ہیں لیکن گھر جہنم کی طرح بے سکون، بے مروت اور بے مہر ہوجاتے ہیں۔
Friday, June 10, 2016
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (آخری قسط) | 10 جون 2016

گزشتہ صدی کی خونچکاں روداد پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی اس بات پر مصر رہے کہ ریاست کو مذہب سے الگ کرنے اور جمہوری طرز حکمرانی قائم کرنے سے خونریزی ختم ہو جاتی ہے تو اسے پوری انسانیت کو ان بیس کروڑ سے بھی زیادہ انسانوں کی موت کا جواز دینا ہو گا جو ان ریاستوں نے بہایا جن کے کاروبار حکومت سے مذہب نکالا جا چکا تھا اور جو اپنی اساس میں جمہوری تھیں۔
تاریخ نے فرعون‘ نمرود‘ شداد‘ چنگیز‘ سکندر ایسے ہزارہا ظالم حکمران پیدا کیے جو تاریخ کے صفحات کو توسیع سلطنت کی خاطر انسانوں کے خون سے رنگین کرتے رہے اور جدید تاریخ نے بھی بیسویں صدی کے سیکولر جمہوری معاشروں اور ریاستوں کا قتل و غارت بھی دیکھا۔ ان دونوں معاشروں اور ریاستوں کے مقابلے میں تاریخ کے صفحات پر ایک اور ریاست بھی جنم لیتی ہے جسے سید الانبیاء ﷺ مدینہ میں قائم کرتے ہیں اور جس کا کسی نہ کسی طور پر تسلسل خلافت عثمانیہ تک چودہ سو سال تک چلتا رہتا ہے۔ تاریخ کا ایک ایسا مغالطہ لوگوں کے ذہن نشین کروایا گیا ہے کہ اسلام کا سیاسی اور ریاستی نظام تو بس تیس سال چلنے کے بعد ختم ہو گیا۔ یہ کلیہ وہ دنیا میں کسی اور حکومت‘ ریاست یا آئین پر نہیں لگاتے‘ پاکستان میں جمہوریت آئے‘ مارشل لا لگے‘ پھر جمہوریت آئے‘ پھر مارشل لاء لگے لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس کا آئین یا ریاست ناکام ہو گئی۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب تک ادارے چل رہے ہیں تو نظام چل رہا ہے۔ یہی دلیل اگراسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ پر لاگو کی جائے تو تیس سال کی خلافت راشدہ کے بعد حکمرانوں کے انتخاب کا طریق تو بدل گیا اور شورائیت کی جگہ خاندانی ملوکیت نے لے لی لیکن وہ ادارے جو رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانوں میں قائم ہوئے تھے وہ سب کے سب تھوڑے بہت زوال کے ساتھ خلافت عثمانیہ تک قائم رہے۔
اسلام کا تعزیراتی نظام اپنی اصل شکل میں قائم رہا‘ یہاں تک کہ برصغیر پاک و ہند میں بھی التمش نے 1256ء میں فقہ حنفی کے تحت عدل و انصاف کا نظام رائج کیا جو 1857ء تک چلتا رہا۔ مجلہ عدلیہ خلافت عثمانیہ کی وہ قانونی دستاویز ہے جو اسلامی نظام عدل و انصاف کو اپنے زیرنگیں علاقوں میں نافذ کرتی تھی اور جس میں تمام جرائم‘ سزاؤں‘ تفتیش کے طریق کار وغیرہ سب کا ذکر ہے۔ یہ عدالتی و تعزیراتی نظام 1924ء تک نافذ رہا۔ اسلام کا معاشی نظام جس میں سود کی حرمت اور بازار (سوق) کی آزادی شامل ہے‘ یہ بھی آخر وقت موجود رہا ہے۔ دنیا بھر میں 1694ء کے بینک آف انگلینڈ کے بعد سودی نظام نے اپنے پنجے گاڑ دیے تھے لیکن خلافت عثمانیہ اس سے مبرا رہی۔
اسی طرح انھی دنوں میں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ذریعے حصص اور پھر کارپوریٹ استعمال کا آغاز ہوا لیکن دنیا بھر کے معاشیت دان اس بات پر متفق ہیں کہ آخری آزادانہ تجارت اور استحصال سے پاک معیشت کا نظارہ دنیا نے عثمانیہ دور کے بازار میں دیکھا۔ یہ بازار جو عام آدمی کو اپنی مصنوعات لا کر بیچنے کے اسلامی اصول پر استوار تھا‘ جب اجڑا تو بڑے بڑے اسٹور اور مال وجود میں آ گئے جہاں ایک شخص سرمائے کی بنیاد پر نوے فیصد اشیائے خورونوش کا مالک بن بیٹھا اور اس نے چھوٹے دکاندار‘ کاشتکار اور کاریگر سے اس کا منافع ہی نہیں رزق بھی چھین لیا۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم موجود رہا‘ ریاست کی خارجہ پالیسی تبدیل نہ ہوئی۔
زکوٰۃ اور صلوٰۃ کا نظام برقرار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اس گئی گزری ریاست کی تاریخ میں ایک بھی عوامی بیزاری کی لہر نظر نہیں آتی۔ حالانکہ اس دوران فرانس میں لوگوں نے اپنے بادشاہوں اور امیروں کو قتل کر کے خونریزی کی تاریخ رقم کی‘ انگلینڈ کے بادشاہ کے خلاف تحریک اٹھی اور اسے چھرے سے ذبح کیا گیا۔ اس دوران چودہ سو سالوں میں نظریاتی اور مسلکی بنیاد پر حکومت بدلنے کی تحریکیں تو اٹھیں لیکن ایک دن کے لیے بھی غربت‘ بے روز گاری‘ انصاف کی عدم فراہمی کی بنیاد پر کسی نے آواز بلند نہ کی۔ اس لیے کہ اسلام کے عدل و انصاف اور معیشت کے قوانین نافذ تھے جن سے معاشرہ امن کا گہوارہ تھا۔ جب کہ فرانس‘ انگلینڈ اور روس میں اسی دوران غربت‘ بیروز گاری اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے خوفناک حد تک خونی انقلاب آئے۔ اس سب کے باوجود بھی کچھ ’’عظیم‘‘ دانشور‘ مفکر اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسلام تیس سال بعد فیل ہو گیا۔
ایسا تجزیہ صرف دو قسم کے افراد کرتے ہیں‘ ایک وہ جو اسلام کو ناقابل نفاذ دین ثابت کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا وہ گروہ جو یہ تصور رکھتا ہے کہ پوری جماعت صحابہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد الٹے پاؤں پلٹ گئی تھی۔ ان کی بات کو مان لیا جائے تو نعوذ بااللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کی سب سے ناکام شخصیت تھے‘ حالانکہ سوائے اس گروہ کے ساری دنیا کے مورخین یہ بات مانتے ہیں کہ سید الانبیاء کی ذات وہ عظیم ہستی ہے جس نے اتنے قلیل عرصے میں اتنی جاہل قوم کو اتنے بڑے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے تیار کیا‘ ایک حکومت قائم کی جس کا اپنا نظام عدل‘ معیشت اور معاشرت ہے اور پھر اس کو دوام بخشا۔
گزشتہ ایک صدی سے میرے ان دوستوں نے ایک رویہ اپنا لیا ہے کہ یورپ میں چرچ کی بالادستی‘ اس کے مظالم اور جبر و تشدد کو مذہب کا نام دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام مذاہب کو ریاست سے جدا کر دو‘ ورنہ ریاست برباد ہو جائے گی۔ چرچ کی وکالت چرچ والے جانیں مجھے تو یہاں صرف اور صرف اسلام کی وکالت کرنا ہے۔ اسلام جب سے ریاست کا مذہب اور دستور بنا ہے تو دنیا نے پہلی بار اخلاقیات کی بالادستی دیکھی ہے۔ اس نے پہلے کی تاریخ کی جنگیں اٹھا کر دیکھ لیں‘ قتل و غارت‘ لوٹ مار‘ فصلوں کو آگ لگانا‘ عورتوں کی سرعام بے حرمتی‘ تشدد‘ سب کچھ نظر آئے گا۔
مذہب یعنی اسلام نے جنگ کی اخلاقیات دیں اور ان پر عمل بھی کر کے دیکھایا۔ یہاں تک کہ ول ڈیورانٹ جیسا متعصب مورخ بھی کہتا ہے کہ یورپ نے صلیبی جنگوں میں جب بیت المقدس فتح کیا تو بازاروں‘ گھروں‘ محلوں میں خون اتنا بہایا گیا کہ گھوڑوں کی پنڈلیاں ڈوب گئیں جب کہ اس کے مقابلے میں صلاح الدین ایوبی کی اسلامی اخلاقیات نے یورپ کو ایک اور چہرہ دکھایا کہ اگر مذہب اسلام ریاست چلا رہا ہو تو جنگ کیسے لڑی جاتی ہے۔ کیا ریاست اسلام سے پہلے ریاستی سطح پر کفالت یتیم‘ مسکین‘ بیوہ اور غریب کا کوئی نظام موجود تھا۔ کیا اس سے پہلے کسی نے دنیا کے بدترین معاشی نظام یعنی سود پر پابندی لگائی تھی۔
آج پوری دنیا نشے کے خلاف جدوجہد کرتی ہے‘ اقوام متحدہ کا ایک ادارہ قائم ہے۔ ہر ملک میں مسلح دستے اس کا قلع قمع کرنے کو تیار ہیں لیکن قابو نہیں پایا جاتا مگر جب ریاست کا مذہب اسلام بنا تو ہر قسم کے نشے پر پابندی لگی اور سزا مقرر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا بھر میں مسلمان وہ واحد قوم ہے جس کے نوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ شراب نوشی اور دیگر نشہ نہیں کرتے۔ میں قوانین کی ایک طویل فہرست بتا سکتا ہوں جو اس وقت دنیا کے سامنے آئے جب اسلام ریاست کا مذہب بنایا گیا اور اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ یہ تمام قوانین‘ اصول و قواعد اور نظام ہائے زندگی جو نفاذ کا ایک پورا طریق کار رکھتے ہیں‘ کیا اسلام میں کسی ریاستی اختیار کے بغیر نافذ کر دیے گئے تھے۔
کیا ریاست مدینہ کے بعد حضرات ابوبکرؓ‘ عمرؓ‘ عثمانؓ اور علیؓ نے جو نظام حکومت قائم کیا اور وہ بھی صرف جزیرہ نما عرب تک محدود نہیں بلکہ ایران‘ مصر‘ شام اور دیگر علاقوں تک وسیع سلطنت میں‘ کیا وہ سب پولیٹیکل یا سیاسی نظام نہیں تھا۔ جس ابن خلدون کا بڑا تذکرہ میرے جدید دانشور کرتے ہیں۔ وہی سیاست کی تعریف اپنے مقدمے میں یوں کرتا ہے ’’فالسیا سۃ و الملک ھی کفالۃ للخق و خلافۃ للہ فی العباد و تنفیذ احکامہ فیھم‘‘ (سیاست اور حکومت مخلوق کی نگہداشت اور ان کے مفاد کی کفالت کی ضمانت کا نام ہے۔ یہ سیاست اللہ کی نیابت ہے اس کے بندوں پر اسی کے احکام نافذ کرنے کے کام میں)۔ کیا یہ پولیٹیکل اسلام نہیں ہے۔ ہاں یہ آپ کی جمہوریت‘ کارپوریٹ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور سیکولر ریاست کے چوکھٹے میں پورا نہیں آتا۔ اگر اسلام کو صرف ایک تبلیغی مشن کے طور پر ہی کام کرنا ہے تو میرے دوستوں کو قرآن پاک سے قتال کے قلم کی وہ بے شمار آیات کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔
فتنے کے ختم ہونے تک قتال کرو۔ کیا یہ حکم ریاست دے گی اور اگر وہی دے گی تو اس کے لیے اسلامی ہونا ضروری ہے اور اسلامی حکومت وہ ہوتی ہے جو اللہ کے قوانین نافذ کرے اور ان کے مطابق فیصلہ کرے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ صرف دو سال قبل جنم لینے والی داعش کو پولیٹیکل اسلام کا نتیجہ بنایا جاتا ہے۔ وہ پولٹیکل اسلام جو ریاست مدینہ سے شروع ہوا اور جس میں جدوجہد اور انقلاب کے سرخیل سیدنا امام حسینؓ ہیں۔ اسلام پر اب یہ وقت آ گیا ہے کہ میرے ملک کے دانشور مجھے راشد الغنوشی کے مراکش سے اسلام کی تعلیمات سیکھنے کا درس دیتے ہیں۔
اس مراکش سے جو اپنے عیاشانہ تصور اور قحبہ گری کے مرکز کی حیثیت سے جو یورپ کے بازاروں میں متعارف ہے اور قافلے جوق در جوق میرے دانشور کے ممدوح ملک میں جاتے ہیں۔ اس کی کوکھ سے اگر ایک نان پولیٹیکل اسلام کی ہمیں صدا دی جاتی ہے تو صرف اتنی بات کہوں گا کہ قرآن سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اور وہی اس کے شارح ہیں‘ اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام کی جماعت تھی اور انھوں نے صحبت رسولؐ میں قرآن کے مطالب سمجھے۔ راشد الغنوشی ہو یا جاوید غامدی‘ سیدنا عمر ابن خطاب کا یہ قول ان سب کی منطق کے مقابلے میں بھاری ہے۔
سیدنا عمرؓ نے فرمایا ’’واللہ مایز ع اللہ بالسلطان اعظم ممایزع بالقران‘‘ ’’اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ حکومت کے ذریعے برائیوں کا جو سدباب کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو قرآن کے ذریعے کرتا ہے (کنزالعمال)۔ میں نے قرآن و حدیث‘ سنت رسول اور سیرت صحابہ سے گزشتہ کالموں ’’طاغوت سے انکار‘‘ اور موجودہ کالموں کی سیرز میں دلائل و براہین رکھ دیے۔
لیکن میرے دوست کالم نگار انھیں اپنی بنائی ہوئی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں۔ آخر میں سورہ بقرہ کی ایک آیت پر ختم کرتا ہوں۔ یہ اس وقت نازل ہوئی جب بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے پاس ایک قتل کا فیصلہ کرانے آئے۔ اللہ فرماتا ہے۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو‘ وہ کہنے لگے کہ ہمارا مذاق بناتے ہیں۔ موسیٰ نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں شامل ہوں (البقرہ 67) میرے یہ دوست بھی ویسا ہی رویہ رکھتے ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو کہتے ہیں آج کے دور میں آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں۔
تاریخ نے فرعون‘ نمرود‘ شداد‘ چنگیز‘ سکندر ایسے ہزارہا ظالم حکمران پیدا کیے جو تاریخ کے صفحات کو توسیع سلطنت کی خاطر انسانوں کے خون سے رنگین کرتے رہے اور جدید تاریخ نے بھی بیسویں صدی کے سیکولر جمہوری معاشروں اور ریاستوں کا قتل و غارت بھی دیکھا۔ ان دونوں معاشروں اور ریاستوں کے مقابلے میں تاریخ کے صفحات پر ایک اور ریاست بھی جنم لیتی ہے جسے سید الانبیاء ﷺ مدینہ میں قائم کرتے ہیں اور جس کا کسی نہ کسی طور پر تسلسل خلافت عثمانیہ تک چودہ سو سال تک چلتا رہتا ہے۔ تاریخ کا ایک ایسا مغالطہ لوگوں کے ذہن نشین کروایا گیا ہے کہ اسلام کا سیاسی اور ریاستی نظام تو بس تیس سال چلنے کے بعد ختم ہو گیا۔ یہ کلیہ وہ دنیا میں کسی اور حکومت‘ ریاست یا آئین پر نہیں لگاتے‘ پاکستان میں جمہوریت آئے‘ مارشل لا لگے‘ پھر جمہوریت آئے‘ پھر مارشل لاء لگے لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس کا آئین یا ریاست ناکام ہو گئی۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب تک ادارے چل رہے ہیں تو نظام چل رہا ہے۔ یہی دلیل اگراسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ پر لاگو کی جائے تو تیس سال کی خلافت راشدہ کے بعد حکمرانوں کے انتخاب کا طریق تو بدل گیا اور شورائیت کی جگہ خاندانی ملوکیت نے لے لی لیکن وہ ادارے جو رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانوں میں قائم ہوئے تھے وہ سب کے سب تھوڑے بہت زوال کے ساتھ خلافت عثمانیہ تک قائم رہے۔
اسلام کا تعزیراتی نظام اپنی اصل شکل میں قائم رہا‘ یہاں تک کہ برصغیر پاک و ہند میں بھی التمش نے 1256ء میں فقہ حنفی کے تحت عدل و انصاف کا نظام رائج کیا جو 1857ء تک چلتا رہا۔ مجلہ عدلیہ خلافت عثمانیہ کی وہ قانونی دستاویز ہے جو اسلامی نظام عدل و انصاف کو اپنے زیرنگیں علاقوں میں نافذ کرتی تھی اور جس میں تمام جرائم‘ سزاؤں‘ تفتیش کے طریق کار وغیرہ سب کا ذکر ہے۔ یہ عدالتی و تعزیراتی نظام 1924ء تک نافذ رہا۔ اسلام کا معاشی نظام جس میں سود کی حرمت اور بازار (سوق) کی آزادی شامل ہے‘ یہ بھی آخر وقت موجود رہا ہے۔ دنیا بھر میں 1694ء کے بینک آف انگلینڈ کے بعد سودی نظام نے اپنے پنجے گاڑ دیے تھے لیکن خلافت عثمانیہ اس سے مبرا رہی۔
اسی طرح انھی دنوں میں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ذریعے حصص اور پھر کارپوریٹ استعمال کا آغاز ہوا لیکن دنیا بھر کے معاشیت دان اس بات پر متفق ہیں کہ آخری آزادانہ تجارت اور استحصال سے پاک معیشت کا نظارہ دنیا نے عثمانیہ دور کے بازار میں دیکھا۔ یہ بازار جو عام آدمی کو اپنی مصنوعات لا کر بیچنے کے اسلامی اصول پر استوار تھا‘ جب اجڑا تو بڑے بڑے اسٹور اور مال وجود میں آ گئے جہاں ایک شخص سرمائے کی بنیاد پر نوے فیصد اشیائے خورونوش کا مالک بن بیٹھا اور اس نے چھوٹے دکاندار‘ کاشتکار اور کاریگر سے اس کا منافع ہی نہیں رزق بھی چھین لیا۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم موجود رہا‘ ریاست کی خارجہ پالیسی تبدیل نہ ہوئی۔
زکوٰۃ اور صلوٰۃ کا نظام برقرار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اس گئی گزری ریاست کی تاریخ میں ایک بھی عوامی بیزاری کی لہر نظر نہیں آتی۔ حالانکہ اس دوران فرانس میں لوگوں نے اپنے بادشاہوں اور امیروں کو قتل کر کے خونریزی کی تاریخ رقم کی‘ انگلینڈ کے بادشاہ کے خلاف تحریک اٹھی اور اسے چھرے سے ذبح کیا گیا۔ اس دوران چودہ سو سالوں میں نظریاتی اور مسلکی بنیاد پر حکومت بدلنے کی تحریکیں تو اٹھیں لیکن ایک دن کے لیے بھی غربت‘ بے روز گاری‘ انصاف کی عدم فراہمی کی بنیاد پر کسی نے آواز بلند نہ کی۔ اس لیے کہ اسلام کے عدل و انصاف اور معیشت کے قوانین نافذ تھے جن سے معاشرہ امن کا گہوارہ تھا۔ جب کہ فرانس‘ انگلینڈ اور روس میں اسی دوران غربت‘ بیروز گاری اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے خوفناک حد تک خونی انقلاب آئے۔ اس سب کے باوجود بھی کچھ ’’عظیم‘‘ دانشور‘ مفکر اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسلام تیس سال بعد فیل ہو گیا۔
ایسا تجزیہ صرف دو قسم کے افراد کرتے ہیں‘ ایک وہ جو اسلام کو ناقابل نفاذ دین ثابت کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا وہ گروہ جو یہ تصور رکھتا ہے کہ پوری جماعت صحابہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد الٹے پاؤں پلٹ گئی تھی۔ ان کی بات کو مان لیا جائے تو نعوذ بااللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کی سب سے ناکام شخصیت تھے‘ حالانکہ سوائے اس گروہ کے ساری دنیا کے مورخین یہ بات مانتے ہیں کہ سید الانبیاء کی ذات وہ عظیم ہستی ہے جس نے اتنے قلیل عرصے میں اتنی جاہل قوم کو اتنے بڑے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے تیار کیا‘ ایک حکومت قائم کی جس کا اپنا نظام عدل‘ معیشت اور معاشرت ہے اور پھر اس کو دوام بخشا۔
گزشتہ ایک صدی سے میرے ان دوستوں نے ایک رویہ اپنا لیا ہے کہ یورپ میں چرچ کی بالادستی‘ اس کے مظالم اور جبر و تشدد کو مذہب کا نام دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام مذاہب کو ریاست سے جدا کر دو‘ ورنہ ریاست برباد ہو جائے گی۔ چرچ کی وکالت چرچ والے جانیں مجھے تو یہاں صرف اور صرف اسلام کی وکالت کرنا ہے۔ اسلام جب سے ریاست کا مذہب اور دستور بنا ہے تو دنیا نے پہلی بار اخلاقیات کی بالادستی دیکھی ہے۔ اس نے پہلے کی تاریخ کی جنگیں اٹھا کر دیکھ لیں‘ قتل و غارت‘ لوٹ مار‘ فصلوں کو آگ لگانا‘ عورتوں کی سرعام بے حرمتی‘ تشدد‘ سب کچھ نظر آئے گا۔
مذہب یعنی اسلام نے جنگ کی اخلاقیات دیں اور ان پر عمل بھی کر کے دیکھایا۔ یہاں تک کہ ول ڈیورانٹ جیسا متعصب مورخ بھی کہتا ہے کہ یورپ نے صلیبی جنگوں میں جب بیت المقدس فتح کیا تو بازاروں‘ گھروں‘ محلوں میں خون اتنا بہایا گیا کہ گھوڑوں کی پنڈلیاں ڈوب گئیں جب کہ اس کے مقابلے میں صلاح الدین ایوبی کی اسلامی اخلاقیات نے یورپ کو ایک اور چہرہ دکھایا کہ اگر مذہب اسلام ریاست چلا رہا ہو تو جنگ کیسے لڑی جاتی ہے۔ کیا ریاست اسلام سے پہلے ریاستی سطح پر کفالت یتیم‘ مسکین‘ بیوہ اور غریب کا کوئی نظام موجود تھا۔ کیا اس سے پہلے کسی نے دنیا کے بدترین معاشی نظام یعنی سود پر پابندی لگائی تھی۔
آج پوری دنیا نشے کے خلاف جدوجہد کرتی ہے‘ اقوام متحدہ کا ایک ادارہ قائم ہے۔ ہر ملک میں مسلح دستے اس کا قلع قمع کرنے کو تیار ہیں لیکن قابو نہیں پایا جاتا مگر جب ریاست کا مذہب اسلام بنا تو ہر قسم کے نشے پر پابندی لگی اور سزا مقرر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا بھر میں مسلمان وہ واحد قوم ہے جس کے نوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ شراب نوشی اور دیگر نشہ نہیں کرتے۔ میں قوانین کی ایک طویل فہرست بتا سکتا ہوں جو اس وقت دنیا کے سامنے آئے جب اسلام ریاست کا مذہب بنایا گیا اور اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ یہ تمام قوانین‘ اصول و قواعد اور نظام ہائے زندگی جو نفاذ کا ایک پورا طریق کار رکھتے ہیں‘ کیا اسلام میں کسی ریاستی اختیار کے بغیر نافذ کر دیے گئے تھے۔
کیا ریاست مدینہ کے بعد حضرات ابوبکرؓ‘ عمرؓ‘ عثمانؓ اور علیؓ نے جو نظام حکومت قائم کیا اور وہ بھی صرف جزیرہ نما عرب تک محدود نہیں بلکہ ایران‘ مصر‘ شام اور دیگر علاقوں تک وسیع سلطنت میں‘ کیا وہ سب پولیٹیکل یا سیاسی نظام نہیں تھا۔ جس ابن خلدون کا بڑا تذکرہ میرے جدید دانشور کرتے ہیں۔ وہی سیاست کی تعریف اپنے مقدمے میں یوں کرتا ہے ’’فالسیا سۃ و الملک ھی کفالۃ للخق و خلافۃ للہ فی العباد و تنفیذ احکامہ فیھم‘‘ (سیاست اور حکومت مخلوق کی نگہداشت اور ان کے مفاد کی کفالت کی ضمانت کا نام ہے۔ یہ سیاست اللہ کی نیابت ہے اس کے بندوں پر اسی کے احکام نافذ کرنے کے کام میں)۔ کیا یہ پولیٹیکل اسلام نہیں ہے۔ ہاں یہ آپ کی جمہوریت‘ کارپوریٹ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور سیکولر ریاست کے چوکھٹے میں پورا نہیں آتا۔ اگر اسلام کو صرف ایک تبلیغی مشن کے طور پر ہی کام کرنا ہے تو میرے دوستوں کو قرآن پاک سے قتال کے قلم کی وہ بے شمار آیات کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔
فتنے کے ختم ہونے تک قتال کرو۔ کیا یہ حکم ریاست دے گی اور اگر وہی دے گی تو اس کے لیے اسلامی ہونا ضروری ہے اور اسلامی حکومت وہ ہوتی ہے جو اللہ کے قوانین نافذ کرے اور ان کے مطابق فیصلہ کرے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ صرف دو سال قبل جنم لینے والی داعش کو پولیٹیکل اسلام کا نتیجہ بنایا جاتا ہے۔ وہ پولٹیکل اسلام جو ریاست مدینہ سے شروع ہوا اور جس میں جدوجہد اور انقلاب کے سرخیل سیدنا امام حسینؓ ہیں۔ اسلام پر اب یہ وقت آ گیا ہے کہ میرے ملک کے دانشور مجھے راشد الغنوشی کے مراکش سے اسلام کی تعلیمات سیکھنے کا درس دیتے ہیں۔
اس مراکش سے جو اپنے عیاشانہ تصور اور قحبہ گری کے مرکز کی حیثیت سے جو یورپ کے بازاروں میں متعارف ہے اور قافلے جوق در جوق میرے دانشور کے ممدوح ملک میں جاتے ہیں۔ اس کی کوکھ سے اگر ایک نان پولیٹیکل اسلام کی ہمیں صدا دی جاتی ہے تو صرف اتنی بات کہوں گا کہ قرآن سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اور وہی اس کے شارح ہیں‘ اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام کی جماعت تھی اور انھوں نے صحبت رسولؐ میں قرآن کے مطالب سمجھے۔ راشد الغنوشی ہو یا جاوید غامدی‘ سیدنا عمر ابن خطاب کا یہ قول ان سب کی منطق کے مقابلے میں بھاری ہے۔
سیدنا عمرؓ نے فرمایا ’’واللہ مایز ع اللہ بالسلطان اعظم ممایزع بالقران‘‘ ’’اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ حکومت کے ذریعے برائیوں کا جو سدباب کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو قرآن کے ذریعے کرتا ہے (کنزالعمال)۔ میں نے قرآن و حدیث‘ سنت رسول اور سیرت صحابہ سے گزشتہ کالموں ’’طاغوت سے انکار‘‘ اور موجودہ کالموں کی سیرز میں دلائل و براہین رکھ دیے۔
لیکن میرے دوست کالم نگار انھیں اپنی بنائی ہوئی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں۔ آخر میں سورہ بقرہ کی ایک آیت پر ختم کرتا ہوں۔ یہ اس وقت نازل ہوئی جب بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے پاس ایک قتل کا فیصلہ کرانے آئے۔ اللہ فرماتا ہے۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو‘ وہ کہنے لگے کہ ہمارا مذاق بناتے ہیں۔ موسیٰ نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں شامل ہوں (البقرہ 67) میرے یہ دوست بھی ویسا ہی رویہ رکھتے ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو کہتے ہیں آج کے دور میں آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں۔
Monday, June 6, 2016
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (2) | 06 جون 2016

بیسویں صدی سیکولر اور جمہوری ریاستوں کی صدی ہے۔ ایک صدی جب کاروبار
ریاست سے مذہب کو دیس نکالا دیا جا چکا تھا۔ اس کے آغاز یعنی 1901ء میں
دنیا کے نقشے پر یا تو سیکولر جمہوری ریاستیں تھیں یا پھر ان کی کالونیاں
یعنی زیر تسلط علاقے، فرانس، برطانیہ اور ہالینڈ یہ تھیں تین جمہوری سیکولر
ریاستیں اور ان کے ظالم پنجوں کے نیچے پوری دنیا کے مختلف علاقے بدترین
غلامی، شدید استحصال اور بے پناہ غربت و افلاس کا شکار تھے۔ پوری دنیا ان
تینوں سیکولر جمہوری ریاستوں کی عملداری تھی اور ان کے ظالمانہ نظام کو ایک
اور سیکولر جمہوری ریاست امریکا کی طاقت، اور ہیبت کی پشت پناہی حاصل تھی۔
دنیا میں مذہب کے نام پر کوئی ریاست وجود نہیں رکھتی تھی۔
کاروبار سلطنت سے مذہب کو دیس نکالا مل چکا تھا۔ لیکن کیا یہ انسانی
تاریخ کا چیختا ہوا سچ نہیں ہے کہ یہ صدی انسانی تاریخ کی سب سے خوفناک اور
خونی صدی تھی۔ انسانوں نے کبھی اس سے پہلے اتنے انسان قتل نہیں کیے جتنے
اس صدی میں ہوئے۔ جرائم کی تفصیل اس قدر طویل ہے کہ اس کے بیان کو ایک عمر
چاہیے۔ سب سے پہلے اس صدی کے سیکولر جمہوری حکمرانوں کی براہ راست لڑی جانے
والی جنگوں کاتذکر ہ کر لیتے ہیں۔ جنگ عظیم اول میں اتحادی افواج میں تمام
منتخب جمہوری حکومتیں شامل تھیں۔ فرانس میں ریمنڈ یونیکاری صدر تھا،
برطانیہ میں پہلے ایچ ایچ الیسکوتھ اور پھر ڈیوڈ لائڈ جارج وزیراعظم تھے۔
امریکا میں وڈرو ولسن صدر تھا، جاپان میں اوکوما شنگنوبو وزیراعظم اور
جرمنی میں تھیوبالڈ ہالویگ چانسلر تھا۔ ان سب جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں
نے پوری دنیا پر ایک ہولناک جنگ مسلط کی جو نہ کسی مذہب کی بالا دستی کے
لیے تھی اور نہ کسی عظیم مقصد کے حصول کے لیے ۔ بس جنگ تھی، ایسی ریاستوں
کی خوفناک جنگ جنھوں نے کچھ عرصہ قبل ہی مذہب کو ریاست سے نکالا تھا۔
اس جنگ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چار کروڑ جیتے جاگتے انسان مارے
گئے۔ بیس لاکھ افراد بیماریوں کی وجہ سے مر گئے۔ اور ساٹھ لاکھ لوگ ابھی تک
لاپتہ شمار کیے جاتے ہیں۔ اس جنگ کے دوران 1918ء میں موت کے سائے کی طرح
ایک بیماری پھیلی جسے ا نفلوئزا کہا گیا اور اسے اسپین کا انفلوئزا بولا
جاتا رہا۔ ان سیکولر جمہوری ریاستوں اور حکومتوں کا جنگی جنون اس قدر
خوفناک تھا کہ انھوں نے لوگوں کا مورال بلند رکھنے کے لیے اس کی اموات کی
اشاعت پر پابندی لگا دی۔ اس طرح کی وبا کے دوران انسانوں کی آمدورفت پر
پابندی لگا دی جاتی ہے تا کہ مزید نہ پھیلے لیکن جنگ تو جنگ ہوتی ہے۔
سپاہیوں نے مستقل ادھر سے ادھر ہونا تھا۔ یہ وائرس یورپ کی افواج میں
آسٹریا میں پھیلا اور پھر یہ فوجیوں کے درمیان گھومتا ہوا دنیا بھر میں
پھیل گیا۔
انسانیت کے ان عظیم سیکولر جمہوری رہنماؤں کو انسانیت کا خیال تک نہ
آیا کہ جنگ روک کر لوگوں کو سرحدوں میں قید کر کے علاج کیا جا ئے اور
بیماری یا وبا کو روکا جائے۔ انھیں تو فتح کا جنون تھا اور جنگ کا ہوکا۔ آج
بھی فورٹ رلی ’’Riley‘‘ میں ان فوجیوں کی تصویریں مل جائیں گی جو اس
بیماری سے اسپتال میں قطار در قطار بستر پر پڑے ہیں۔ جنھیں تھوڑی بہت دوا
دے کر پھر جنگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 1918ء کے اس
انفلوائزا سے تقریباً دس کروڑ لوگ ہلاک ہوئے یعنی دنیا کی پانچ فیصد آبادی
صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ لیکن ان لوگوں نے نہ جنگ روکی اور نہ ہی لوگوں تک
دوا پہنچائی کہ سب کچھ تو اسلحے پر خرچ ہو رہا تھا۔16 کروڑ اموات کا یہ
تحفہ اس صدی کے آغاز میں ان جمہوری طور پر منتخب اور سیکولر حکومتوں نے
انسانیت کو دیا۔
اس جنگ میں کسی کو شکست ہوئی تو کوئی فاتح، شکست خوردہ جرمنی سے ایک
عظیم جمہوری رہنما نے جنم لیا جو اس بلا کا مقرر تھا کہ لوگ دیوانہ وار اسے
سننے کے لیے جاتے۔ اس نے جرمن قوم کو زندہ کرنے کا نعرہ بلند کیا، یہ
مقبول رہنما ہٹلر تھا جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر جرمنی کا چانسلر
بنا۔ دوسری جانب اس کے مقابلے پر بھی انتہائی مقبول سیاسی رہنما اور
جمہوریت کی آبرو چرچل تھا جو برطانیہ کے عوام کے دلوں میں دھڑکن کی طرح
بستا تھا۔ امریکا میں بھی ایک مقبول صدر اور منتخب حکمران روز ویلٹ موجود
تھا اور فرانس کا ہر دلعزیز جمہوری لیڈر ڈیگال برسراقتدار تھا۔ یہ سب وہ
لوگ ہیں جنھیں سیکولر جمہوری ریاستوں کی آبرو کہا جاتا ہے۔
ان سب لوگوں نے اس دنیا میں جس قدر قتل و غارت کا بازار گرم کیا، جو
حیوانیت اور درندگی دوسری جنگ عظیم میں اٹھائی گئی اس کی مثال اگر کسی قہر
اور آفت سے دی جائے تو وہ بھی شرمندہ ہو جائیں۔ اس جنگ میں ایک اندازے کے
مطابق 8 کروڑ لوگ لقمہ اجل بنے جن میں پانچ کروڑ پچاس لاکھ عام شہری تھے۔
ان اموات کی تفصیل پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ جمہوری سیکولر
حکمران کیسے بستیوں کی بستیاں اجاڑتے تھے، کسی خاص نسل ، زبان یا مذہب کے
افراد کو قتل کرتے تھے، لوگوں تک خوارک کی ترسیل روکتے تھے۔
اسی جنگ کے دوران بنگال میں قحط پھیل گیا۔ فصلیں تباہ ہو چکی تھیں، لوگ
خوراک کو ترستے تھے۔ برطانیہ کی جمہوری سیکولر ریاست ہندوستان پر حکمران
تھی۔ 1943ء میں اس قحط کے دوران خوراک کی ترسیل روک دی گئی کہ حکومتوں کو
جنگ سے فرصت نہ تھی۔ چالیس لاکھ لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے جن میں نوے
فیصد سے زیادہ مسلمان تھے۔ یہ صرف اس صدی کی دو جنگوں کا تحفہ ہے جو
انسانیت کو ان حکومتوں نے د یا۔ وہ ریاستیں جو اس بنیاد پر قائم کی گئی
تھیں کہ ریاست سے مذہب کو علیحدہ کر دو کہ یہ خونریزی کا باعث بنتا ہے۔
مجھے اسلام کے علاوہ کسی مذہب کی وکالت نہیں کرنا۔ اس لیے کہ یہ دستور بنا
لیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں چرچ کے گناہوں، زیادتیوں اور مظالم کا ملبہ
مذہب کے نام پر اسلام کو ریاست سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
صرف ان دو جنگوں میں جتنے افراد قتل کیے گئے، جتنے شہر ویران ہوئے اور جو
ظلم و دہشت کا بازار گرم کیا گیا۔
اگر میرے دوست اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں فتوحات سے لے کر خانہ
جنگیوں تک اور مسلکی قتل و غارت تک سب ملا کر ان دونوں جنگوں میں اموات کا
دس فیصد بھی نہیں نکال سکیں گے۔ بلکہ ان دونوں جنگوں کی کل اموات کو پوری
تاریخ انسانیت کی جنگوں کے مقابلے میں رکھا جائے تو یہ اموات زیادہ نکلیں
گی۔ کسی چنگیز خان، ہلاکو، سکندر یا فرعون و نمردو ، سینرر و اشوک کے نصیب
میں بھی اتنے قتل و غارت کے غلغلے نہیں ہیں جتنے ان جمہوری طور پر منتخب
اور عوام کے دلوں میں بسنے والے سیکولر رہنماؤں کے نصیب میں تھے۔ یہ تو
صرف دو جنگوں کا ذکر ہے جو ذرا بڑے پیمانے پر لڑی گئیں۔ ان کے بعد یہ لوگ
کہاں چین سے بیٹھ گئے۔
ایک طرف جمہوری حکمران تھے تو اسی صدی میں دوسری طرف اللہ کے وجود سے
منکر اور غریب کی بادشاہت کا نعرہ لگانے والے کمیونسٹ بھی دنیا کے نقشے پر
ابھرے۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے قریب 1917ء میں انھوں نے روس سے مذہب کو
دیس نکالا دے دیا اور سوویت یونین وجود میں آ گیا۔ لیکن اسی انقلاب کے
دوران ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا۔ وسطی ایشیائی مسلمان
ریاستوں ازبکستان، تاجکستان، کرغسیتان، قازقستان، ترکمانستان اور
آذربائیجان کو بدترین قتل و غارت سے 1934ء تک سوویت یونین کا حصہ بنایا
گیا۔ یوکرین پر جب قبضہ کیا گیا تو سرخ فوج نے شہر سے پچاس ہزار نوجوانوں
کو باہر نکالا اور قطار میں کھڑے کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ پولینڈ، چیکو
سلواکیہ، یوگوسلاویہ ان سب پر حملہ کیا گیا۔ لوگوں کو گاجر مولی کی طرح
کاٹا گیا تا کہ ایک مذہب سے دور ریاست قائم ہو جو کمیونسٹ نظام زندگی کو
نافذ کرے۔ دوسری جانب جنگ عظیم اول کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ امریکی
ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدور اور کانگریس کے ممبران جمہوری طور پر فیصلے
کرتے رہے کہ ہم نے ویتنام میں فوج بھیجنا ہے، فلپائن پر حملہ کرنا ہے، چلی،
نکارا گوار، ہنڈراس، برازیل اور لاطینی امریکا کے دیگر ممالک میں ایک نہ
ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کیا گیا۔
قتل و غارت کے ساٹھ سال، انسانی تاریخ کا بدنما اور مکروہ دور جب جمہوری
اور کمیونسٹ ریاستیں انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی تھیں اور دونوں کے
کاروبار ریاست سے مذہب کو بے د خل کیا جا چکا تھا۔ 1954ء سے 1975ء تک چلنے
والی ویتنام جنگ میں پندرہ لاکھ انسان موت کی آغوش میں چلے گئے۔ یہ صرف ایک
ملک کی اموات کا شمار ہے۔ جنوبی امریکا، افریقہ، مشرق بعید، مشرق وسطیٰ کی
اموات کا حساب لگائیں تو یہ سب ا یک جنگ عظیم کے برابر بن جاتی ہیں۔ یہ ہے
سب اس صدی میں ہوا جسے انسانی ترقی، مذہب سے ریاست کی آزادی، جمہوریت کا
بحیثیت نظام مسلط ہونا ، ٹیکنالوجی اور عالمی انسانی حقوق کی بالادستی کی
صدی کہا جاتا ہے۔
اس صدی کے ظلم کا ملبہ کندھوں پر اٹھائے ہم ایک اور خونی صدی یعنی
اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں جو گیارہ ستمبر کے واقعے سے اپنے خونی سفر
کا آغاز کر چکی ہے۔ یہ ریاست کی مذہب سے آزادی کی مختصر سی کتھا اور
جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کا کردار۔ اس کے باوجود بھی کس قدر ڈھٹائی سے
یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ انسان کی ترقی ایک سیکولر جمہوری نظام حکومت میں
مضمر ہے۔ انسانی جان کی بے وقعتی ، بے حرمتی اور بے قیمتی کا اس سے برا
تصور نہیں ہے اور کروڑوں لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اس تصور حکومت کی
وکالت کس قدر حوصلے اور ڈھٹائی کی بات ہے۔
(جاری ہے)
Friday, June 3, 2016
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (1) | 03 جون 2016

تاریخ، انسانوں کا صدیوں تک زندہ و جاوید رہنے یا صدیوں تک دوسروں کو
ذلیل و رسوا کرنے کی خواہشوں سے جنم لینے والے ایک ایسے عظیم مجموعے کا نام
ہے جس میں سچ کو تلاش کرنا ایسا ہے جیسے کالی رات میں سیاہ پتھر پر رینگتی
ہوئی کالی چیونٹی کو تلاش کیا جائے۔ دنیا میں آج تک کسی نے تعصب سے
بالاتر ہو کر تاریخ مرتب نہیں کی۔ ہر کسی کا اپنا سچ اور اپنا جھوٹ تھا جو
اس نے تاریخ کے ذخیرے میں شامل کر دیا۔ ان تاریخ کے ذخیروں میں اگر سچ تلاش
کرنے والے بھی آئے تو انھوں نے بھی اپنی مرضی کا سچ ڈھونڈا اور وہ بھی
اپنے تعصب کو نہ نکال سکے۔
لوگوں نے اصل ماخذوں سے اپنی مرضی کے واقعات نکالے اور پھر ان کو اپنے
نظریات و خیالات کے جواز کے طور پر استعمال کیا، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ پہلے یہ کام سنجیدہ مورخین اور ادیب کرتے تھے اب یہ کام
میرے جیسے کالم نگاروں نے سنبھال لیا ہے۔ چونکہ تاریخ بذات خود تعصبات کا
مجموعہ ہے۔ سچ اور جھوٹ کا ایسا ملغوبہ ہے کہ اس میں سچ تلاش کرنا نا ممکن
نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے، اس لیے ہمیں اپنی بات، نظریے اور خیال کو سچ
ثابت کرنے کے لیے ہر جانب بے شمار واقعات مل جاتے ہیں۔ اسی لیے ہم کسی کے
عقیدے، مذہب، دین یا نظریہ کو جھٹلانا چاہیں تو ہم تاریخ سے ڈھونڈ کر ایسے
واقعات لے آئیں گے اور اپنا مقدمہ سچ ثابت کر دیں گے۔
اس معاملے میں انسانی تاریخ کا سب سے مظلوم نظریہ دین اسلام کا ہے۔ کوئی
اس نظریے کو باطل ثابت کرنے کی جرات اس لیے نہیں کرتا کہ یہ نا ممکن سا
کام ہے۔ لیکن اس عقیدے کو تاریخ کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنا شروع کر دیتا
ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ہم میڈیسن کے علم کو ناکام ثابت کرنا چاہیں
تو دس ہزار نااہل اور ناکارہ ڈاکٹروں کی مثالیں دے کر ثابت کرتے پھریں کہ
یہ علم تو دریا برد ہو جانا چاہیے۔
لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا۔ لوگ جمہوریت کو ناکام نہیں کہتے بلکہ سیاست
دانوں کو بددیانت اور نااہل گردانتے ہیں۔ لیکن اگر معاملہ دین اسلام کا آ
جائے تو دنیا کے ہر خطے میں تعصب نکھر کر سامنے آتا ہے۔ تاریخ سے ڈھونڈ کر
مثالیں لائی جاتی ہیں کہ فلاں مسلمان حکمران یا فرد نے ایسا کیا۔ اسے مغل،
عباسی، اموی، عثمانی وغیرہ نہیں کہا جاتا۔ جب کہ ظلم اور بربریت کا بازار
ہٹلر گرم کرے، کروڑوں لوگ قتل کر دے لیکن وہ جرمن حکمران رہتا ہے ایک
عیسائی نہیں کہلا پاتا کہ تاریخ صرف لکھنے والوں کا تعصب نہیں بلکہ اس پر
مبنی تبصرہ کرنے والوں، تجزیہ نکالنے والوں اور بڑے بڑے عظیم دانشوروں کے
بدترین تعصب کا بھی شاہکار ہے۔
تاریخ کے کوڑے دان سے ہر کسی نے اپنی مرضی کا ورق نکالا۔ جھاڑا پونچھا،
نوک پلک سنواری اور کسی کو ظالم، ناکام، بے رحم اور جاہل ثابت کر دیا اور
کسی کو عظیم، رحم دل، منصف مزاج اور قابل بنا دیا۔ تاریخ کے تعصب اور جھوٹ
کا عالم یہ ہے کہ ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو ہمارے دور کی شخصیات
ہیں۔ آپ اول تو ان دونوں کے بارے میں مکمل سچ نہ لکھ پاتے ہیں اور میڈیا
کی آزادی کے اس دور میں بھی بول نہیں پاتے۔ آپ کو ان دونوں پر کوئی ایک
کتاب بھی تعصب اور جھوٹ سے پاک نظر نہیں آئے گی۔ حالانکہ ان دونوں کے ساتھ
زندگی گزارنے اور ان کے عہد میں زندہ رہنے والے کروڑوں لوگ اس دھرتی پر
موجود ہیں۔ آپ کو اپنے سامنے ہونے والے واقعے بنگلہ دیش کے قیام پر کوئی
ایک آزاد، غیر متعصب اور شک و شبہ سے بالاتر کتاب نہیں ملے گی۔ یہ تو وہ
دور ہے جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
آج سے ایک ہزار سال بعد اگر کوئی مورخ، تجزیہ نگار یا پھر اس دور کا
کالم نگار ضیاء الحق کو ولی بھی ثابت کر سکتا ہے اور منافق بھی، بھٹو کو
عظیم سیاسی رہنما بھی بنا سکتا ہے اور غدار وطن بھی۔ اس کے لیے آج ہم جو
تاریخ لکھ رہے ہیں اس میں دونوں جانب اتنا مواد موجود ہے کہ کل کئی مورخ
بڑی بڑی تجزیاتی کتابیں لکھ سکتے ہیں۔ دو کالم نگار آپس میں ایک طویل بحث
چھیڑ سکتے ہیں۔ بے شمار اینکرپرسن دونوں جانب حمایت یا مخالفت میں کئی شو
کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہم اسی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں
اور اس تعصب، جھوٹ، خوشامد، نفرت اور بادشاہوں بلکہ بعض اوقات عوام کے خوف
میں لکھی ہوئی تحریر کو اپنا رہنما اور اگلے دور کے لیے کسوٹی بنانا چاہتے
ہیں۔
جدید سیکولر علوم کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دو تین اصولوں کو سچ
ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے اس کوڑے دان سے اپنی مرضی کا سچ نکالا، مرضی کے
ہیرو تراشے اور مرضی کے واقعات کی اپنے تعصب کی بنیاد پر تشریح کی اور پھر
اسے ایک عالمی تاریخی سچائی بنا کر دنیا میں پھیلا دیا۔ آج دنیا کے ہر
نصاب، ہر تاریخی ریفرنس، ہر تجزیاتی رپورٹ اور ہر دانشورانہ تحریر میں بغیر
کسی تحقیق کے ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً دنیا بھر میں سکندر اعظم ایک
عظیم بادشاہ ہے، چونکہ اس کا تعلق یورپ سے ہے۔ اس کے بارے میں آپ کو جدید
نصابوں اور حوالہ جات میں کوئی منفی بات نظر نہیں آئے گی۔ ایک فاتح،
ارسطو کا شاگرد، دیو جانس کلبی کا مداح، عظمت و بڑائی کی داستانیں اس سے
وابستہ ہیں یہاں تک آپ کو ایران، افغانستان اور پاکستان جن کو اس نے تاراج
کیا، یہاں ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا، وہاں بھی ڈھائی ہزار سال گزرنے کے
باوجود بے تحاشہ بچوں کے نام سکندر ملیں گے۔
حالانکہ سکندر نہ مسلمان تھا اور نہ ہی یہاں کا کوئی مقامی حکمران یا
رہنما۔ کوئی نہیں بتاتا کہ وہ دنیا کا انتہائی ظالم حکمران تھا، ایسا ظالم
کہ اس نے تھیبس شہر کے تمام شہریوں جن میں ایک دن کے بچے سے لے کر نوے سال
کے بوڑھے تک سب شامل تھے، اس لیے قتل کر دیا تھا کہ انھوں نے سکندر کے
بیمار پڑنے پر یہ خبر اڑا دی تھی کہ سکندر مر گیا ہے۔ جس نے تاریخ میں پہلی
دفعہ سفارت کاروں کو قتل کرنے کا آغاز کیا۔
جس نے ایران میں پارسیوں کی مذہبی عبادت گاہ اس لیے مسمار کی کہ اس کو
پتہ چلا تھا کہ اس میں سونا اور جواہرات ہیں۔ اس مشہور یونانی علم دوست نے
ایران کے کتب خانے کو آگ لگائی۔ یہ سب کچھ اسی تاریخ کے کوڑے دان میں
موجود ہے۔ لیکن کسقدر صفائی سے جھاڑ پونچھ کر اس کی شخصیت کو امریکا سے لے
کر آسٹریلیا تک ہر نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔
دوسری جانب تاریخ کے اسی کوڑے دان سے ایک جھوٹ نکالا جاتا ہے جس سے ایک
مسلمان کو بدنام کرنا مقصود ہوتا ہے اور اسے آندھی اور طوفان کی طرح پھیلا
دیا جاتا ہے۔ مثلاً محمود غزنوی نے سومنات کے مندر کو تباہ کیا اور دولت
لوٹ کر لے گیا حالانکہ تاریخ کے اسی کوڑے دان میں ایک گواہی موجود تھی کہ
سومنات کا مندر محمود غزنوی سے بہت پہلے جین مت کے حکمرانوں نے تباہ کر دیا
تھا اور اس پر مہاویر کا جھنڈا لہرا کر اعلان کیا تھا کہ ہم نے شیو پر فتح
حاصل کر لی ہے۔ محمود غزنوی کے نام اس جرم کو تھونپنے والے دو مورخین تھے
جنہوں نے انگریز حکمرانوں کی سرپرستی میں کتاب لکھی جس کا نام تھا
(History of India as it is told by its own historian ان مورخین کا نام
تھا ایچ ایم ایلیٹ (HM Elliot) اور ایڈجان ڈاؤسن (Ed.John Dowson) انھوں
نے محمود غزنوی مذہبی شدت پسند بنا کر پیش کیا اور آج بھی ہم اس کو بت شکن
کے متعصب لقب سے جدا نہیں کر سکے۔ اسی طرح بہت سے واقعات کو بھی تعصب اور
جھوٹ کی ملمع کاری سے آلودہ کیا گیا۔
تاریخ میں سب سے بڑی لائبریری سکندریہ کی تھی جسے جولیس سیزر کی افواج
نے 48 قبل مسیح میں آگ لگا دی تھی اور لاکھوں نسخے جو پیپرس کے درخت کی
چھال پر لکھے گئے تھے جل کر خاک ہو گئے تھے۔ انھوں نے پھر کتابیں لکھیں
جنھیں پھر ایک رومن بادشاہ اورلیان (Aurelion) نے 270 عیسوی میں آگ لگا دی
لیکن یورپ جب تاریخ مرتب کرنے پر آیا تو اس نے ایک جھوٹی روایت بنا ڈالی
کہ اس لائبریری کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمان افواج نے آگ لگائی
حالانکہ اس وقت تو اس لائبریری کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا تھا۔ لیکن
تاریخ کا جھوٹ تمام دنیا میں مقبول کیا گیا اور حضرت عمرؓ کے دشمن مسلمانوں
نے بھی اس جھوٹ کو فروغ دیا۔ میں تاریخ کے اس کوڑے دان سے ایسی ہزاروں
تحریریں نکال کر دکھا سکتا ہوں جو موجودہ تین یا چار صدیوں میں صرف اور صرف
مسلمان اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹ کی بنیاد پر تخلیق کی گئیں۔
ان تحریروں کو لکھنے والے مغرب کے عظیم مفکر بھی شامل تھے اور وہ مسلمان
بھی جنھیں اپنے وجود سے اس بنیاد پر نفرت ہے کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا
ہو کر مسلمان کیوں کہلائے، انھیں تو کسی لا مذہب، سیکولر باپ کے گھر پیدا
ہونا چاہیے تھا تاکہ اپنی شناخت بہتر بناتے، یا پھر وہ مسلمان جن کو اسلام
کی عظیم تاریخی شخصیات سے مسلکی نفرت اور تعصب ہے اور ان کی بدنامی میں وہ
اپنا مفاد دیکھتے ہیں، انھوں نے مغرب سے ایسی تمام روایات اٹھائیں اور جھاڑ
پونچھ کر انھیں مستند اسلامی تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ کچھ مواد ان کو مسلمان
مورخین سے بھی ملا جنہوں نے اپنی ذاتی نفرت کی بنیاد پر یا عقیدے کے تعصب
میں تاریخی جھوٹ تحریر کیے تھے۔
اس سب کے باوجود موجودہ دور کے مغربی، جمہوری سیکولر طرز زندگی نے اپنے
دو مخصوص تصورات کو عام کرنے اور انھیں تاریخی حقیقت کا جواز دینے کے لیے
اسی تاریخ کے کوڑے دان کا سہارا لیا اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنایا۔
یہ دو نظریات یہ ہیں -1ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور -2 جمہوریت میں
ریاست کی بقا ہے۔ ان دونوں نظریات کی ترویج، ترقی اور اشاعت انقلاب فرانس
کے آس پاس کے فلسفیوں، مورخوں اور دانشوروں نے زور شور سے کی۔ والٹیئر اور
روسو جیسے لوگ اس کے سرخیل تھے۔
دلیل یہ دی گئی کہ اگر کاروبار ریاست میں مذہب شامل کر دیا جائے تو یہ
خونریزی اور قتل و غارت کا سبب بنتا ہے۔ دو تین صدیاں مذہب کو ریاست سے الگ
کرنے میں لگ گئیں اور جمہوریت بھی آہستہ آہستہ پروان چڑھتی گئی۔ 1900 تک
یہ سب کام مکمل ہو گیا، مذہب کو دھکے مار کر ریاست سے نکال دیا گیا اور
جمہوری حکمران یورپ پر راج کرنے لگے۔ لیکن پھر یہ کیا ہوا۔ اس کے بعد دو
عظیم جنگیں ہوئیں، دس کروڑ سے زیادہ لوگ مار دیے گئے۔ اب تو مذہب کی ریاست
سے چھٹی ہو چکی تھی۔ چرچل بھی جمہوری حکمران تھا اور ہٹلر بھی ووٹ لے کر
حکمران بنا تھا۔ شاید پوری انسانی تاریخ میں اتنا قتل و غارت نہیں ہوا جس
قدر ان دو جنگوں میں ہوا۔ مذہب تو کاروبار ریاست سے بہت دور تھا اور آمریت
بھی دم توڑ چکی تھی۔ (جاری ہے)