یہ فقرے ایک ایسی خاتون کے ہیں جس کی عمر حقوقِ نسواں کے قافلے کے ساتھ چلتے گزری ہے، بنیادی طور پر ایک شاعرہ جس کی کتاب ’’لب گویا‘‘ میں نے عین عنفوان شباب میں پڑھی اور اس کی کتنی غزلوں پر سردھنتا رہا۔ نہ باغیانہ اور نہ ہی روایت پسندانہ۔ ایک شعر تو ایسا ہے اس کے اشعار میں سے ہے جو میں آج بھی کبھی کبھی شدید تنہائی، اکتاہٹ اور اضطراب کے عالم میں گنگنا لیتا ہوں۔
روح بھی تشنہ رہے گی ریگِ ساحل کی طرح
جسم بھی شوقِ تعلق میں اجڑتا جائے گا
آج سے ٹھیک چوالیس سال قبل جب وہ حلقۂ ارباب ذوق گجرات میں آئی تو مجھے وہ اپنے اس شعر کے بالکل الٹ محسوس ہوئی۔
دیکھ کر جس شخص کو ہنسنا بہت
سر کو اس کے سامنے ڈھکنا بہت
مرحوم شاہد واسطی بتاتے تھے کہ وہ اسے اس زمانے سے جانتے ہیںاسے جب وہ کس کے اوڑھنی لپیٹے مشاعروں میں پڑھنے آتی تھی۔ میں نے جب اس شعر والی غزل سنانے کی فرمائش کی اس نے مجھے ایک سولہ سالہ نوجوان سمجھتے ہوئے اس فرمائش پر ازراہ تفنن کہا ’’تو کیا ڈھک کے دکھاؤں‘‘۔ روایت میں گندھی اور بغاوت کی راہ پر چلتی اس کشور ناہید کے کالم کے یہ فقرے میرے لیے نہ تو چونکا دینے والے ہیں اور نہ ہی حیرت کا سامان۔ البتہ تعجب ہے کہ یہ اتنی دیر کے بعد کیوں ادا ہوئے۔ کالم کا عنوان ہی ایسا ہے ’’ماؤں کی ممتا اور عورتوں کی عزت کہاں گئی‘‘ لکھتی ہیں ’’یہ بے ہودہ گفتگو سن کر میرا بلڈ پریشر ایک دم چڑھ گیا کہ میرا کیا، کسی کا بھی ذہن قبول نہیں کر رہا تھا کہ مائیں بھی ایسی ظالم ہو سکتی ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو گھر بلا کر خود آگ لگا دیں۔‘‘ کتنے سالوں کے بعد اسے وہ ماں یاد آ گئی جس کو تحفظ حقوق نسواں کی تیز رفتار گاڑی کے نیچے کچل دیا گیا اور اس کی چیخیں تک پسند کی شادی، ظالم سماج اور تاریخی جبر کے بلند و بالا نعروں کے اندر دب کر رہ گئی تھیں۔
پتہ نہیں کیوں ان واقعات کے دوران ہمیشہ مجھے ایک ماں بہت یاد آتی ہے۔ میں سبی میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔ میری عدالت میں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک ٹانگ سے لنگڑاتا ہوا نوجوان ایک تعلیم یافتہ بچی کے ساتھ داخل ہوا۔ دونوں میز کی دوسری جانب کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا تم دونوں کے والدین کہاں ہیں۔ لڑکے نے کہا کہ اس کے والدین سندھ میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ بچپن ہی میں گھر سے بھاگ گیا تھا اور اب ان سے کوئی رابطہ نہیں۔ میں نے پوچھا کیا کرتے ہو، کہنے لگا میں ٹانگہ چلاتا ہوں۔ میں نے لڑکی سے والدین کے بارے میں سوال کیا تو وہ سہم گئی اور کہنے لگی انھیں نہیں پتہ اور پلیز آپ انھیں مت بتائیں۔ میں نے پوچھا آپ اس لڑکے کو کیسے جانتی ہو۔
اس نے کہا میرے والد ایک اسکول میں استاد ہیں۔ انھیں مجھے پڑھانے کا بہت شوق ہے۔ انھوں نے میرے اسکول آنے جانے کے لیے سالم ٹانگہ لگوا کے دیا ہے‘ حالانکہ وہ خود کئی میل پیدل جاتے ہیں۔ یہ اس ٹانگے کا کوچوان ہے اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ میرے والدین نہیں مانیں گے۔ اس لیے ہم دونوں کورٹ میرج کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکی یہ سب انتہائی معصومیت اور صاف دلی سے بولے جا رہی تھی اور لڑکے کے چہرے پر ایک کریہہ قسم کی مسکراہٹ تھی۔ میں نے دونوں کو سائیڈ روم میں بٹھایا اور اپنے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر خلیق نذر کیانی سے کہا کہ جلد از جلد لڑکی کے والدین کو یہاں بلائے۔ سبی چھوٹا سا شہر ہے، آدھے گھنٹے میں ایک سفید داڑھی والا استاد سر پر سبی کی گرمی سے بچنے کے لیے بڑی سی چادر لپیٹے اپنی ادھیڑ عمر بیوی کے ساتھ داخل ہوا۔
بیوی کا چہرہ مشقت اور غربت کی تصویر تھا اور ہاتھوں میں مسلسل محنت اور کام سے لائنیں اس طرح پڑگئیں تھیں جیسے پوروں کو کسی نے بلیڈ سے زخم لگائے ہوں اور ان میں میل پھنس گیا ہو۔ میں نے جب ان کو ان کی بیٹی کے ارادوں کے بارے میں بتایا تو وہ دونوں حیرت سے پیلے پڑ گئے۔ باپ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور ہاتھ کپکپانے لگا۔ ماں نے تھوڑا حوصلہ پکڑا اور پوچھا ’’اس نے کر لی شادی‘‘۔ میں نے کہا ابھی نہیں۔ میں نے انھیں اس لیے روکا ہے کہ آپ اسے سمجھائیں یا پھر اپنی مرضی سے شادی کر دیں۔
اس کے بعد جو بیتی وہ آج بھی چشم تصور میں لاتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ باپ میں یہ حوصلہ نہ تھا کہ وہ سامنا کرتا، وہ بیچارا استاد آنسو پونچھتا باہر چلا گیا اور میں نے لڑکی کو ماں کے پاس بلایا۔ لڑکی اسے دیکھتے ہی بھونچکا رہ گئی۔ میرے تسلی دینے پر پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اس کے بعد اس ماں نے جو کیا اس کا تو میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنی گفتگو سے پہلے ہاتھ جوڑے، اس کی آنکھوں سے اب تک رکے ہوئے آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا۔ وہ منتوں ترلوں پر آ گئی۔ اس کی محدود لغت میں بے بسی، لاچاری، مسکینی کے جتنے لفظ تھے اس نے ادا کر دیے۔ کبھی باپ کی سفید داڑھی کا واسطہ دیتی، کبھی بہنوں کا بتاتی کہ وہ لوگوں کو کیا جواب دیں گی۔ ان سے کون بیاہ کرے گا۔
روتے روتے کہنے لگی، میری بات چھوڑو میں ہوں ہی ایک ذلیل عورت، مزید ذلت سہہ لوں گی کہ کیسی بیٹی پیدا کی، کیسی اس کی تربیت کی۔ لیکن تمہارے باپ کا کیا ہو گا۔ وہ کیسے باہر جائے گا، کس کو منہ دکھائے گا۔ کتنا پیار کرتا ہے وہ تم سے، سالم تانگلہ لگوا کے دیا ہے۔ خود پیدل جاتا ہے۔ اس کی ایڑھیاں پھٹ گئیں ہیں، خون رستا ہے ان میں سے، میں روز ویزلین لگاتی ہوں تب اسے نیند آتی ہے۔ لڑکی پر تو جیسے جنون سوار تھا۔ کہنے لگی آپ میری شادی کر دیں۔ ماں کہنے لگی میں کیسے کر دوں، وہ ٹھیک نہیں ہے تمہارے لیے، تمہیں نہیں پتہ ہے، تم بعد میں روؤگی۔
لڑکی گفتگو کے دوران بار بار غصے سے اٹھ کھڑی ہوتی اور ماں انتہائی لجاجت سے اس کی قمیض کا دامن پکڑ کر اسے بٹھا لیتی، روتی، منتیں ترلے کرتی، لیکن لڑکی نہ مانی، بے بس ماں نے بس اتنا کہا کہ تو کر لے شادی لیکن بعد میں ہم دونوں اکٹھے مل کر روئیں گے۔ اس کے بعد وہ باہر گئی، خاوند کو لے کر اندر آئی، دونوں سامنے بیٹھ گئے، باپ روئے جا رہا تھا اور وہ دوپٹے کے پلو سے اپنے خاوند کے آنسو صاف کرتے جا رہی تھی۔ باپ نے کہا میں اس کو منا لیتا ہوں۔ ایسے میں وہ شیرنی بن گئی۔ اس نے کہا ’’میں آپ کو اس کے سامنے ذلیل نہیں ہونے دوں گی‘‘۔ میں نے اور خلیق نذر کیانی نے سمجھایا کہ آپ اس کی شادی اپنے ہاتھوں سے کر دیں۔ دونوں بولے ہم ماں باپ ہیں ہماری اولاد زہر کھانے جا رہی ہو، کنویں میں چھلانگ لگا رہی ہوں تو اس کے اس فعل میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ اس نے لوٹ کے کل ہمارے پاس آنا ہے۔
اسے اندازہ تو ہو کہ اس کی اس غلطی میں ہم شریک نہ تھے۔ بوجھل قدموں سے آنسو پونچھتے وہ دونوں میرے دفتر سے باہر چلے گئے۔ دونوں کو کورٹ میرج کا اجازت نامہ مل گیا۔ شادی ہو گئی۔ لیکن بدنصیب بیٹی کو واپس لوٹ کر ماں کے ساتھ مل کر رونا بھی نصیب نہ ہو سکا۔ وہ لڑکا اسے سندھ لے گیا۔ چند ماہ اس کے ساتھ گزارے اور پھر اسے طلاق دے کر صرف چند ہزار کے عوض فروخت کر دیا۔ بلوچستان اور سندھ کے درمیان یہ عمومی کاروبار ہے۔ جو بلوچ لڑکی کاری ہو جائے اور وہ سردار کے گھر میں پناہ حاصل کر لے تو اسے قتل نہیں کیا جاتا بلکہ سندھ میں بیچ دیا جاتا ہے جس کے آدھے پیسے گھر والوں اور آدھے سردار کے ہوتے ہیں۔ وہ لڑکی جس طرح کئی سالوں بعد اجڑی لٹی پٹی اپنے گھر لوٹی وہ ایک الگ داستان ہے۔
لیکن وہ ماں جو ایک عورت ہے، ایک ایسی عورت جسے تحفظ حقوق نسواں کی کوئی انجمن نہیں پہچانتی۔ ان کے نزدیک حق صرف اسی لڑکی کا ہے جو اس سے بغاوت کر کے اپنی مرضی سے بیاہ رچانا چاہتی ہے۔ یہ لڑکی ان حقوق نسواں کی علمبرداروں کی ہیروئن ہے اور یہ ماں ان تمام انجمنوں کی ولن۔ ایسی ولن جس نے اس ہیروئن کو اس وقت پالا پوسا جب وہ نوماہ اس کے پیٹ میں تھی، اسے اپنے سینے سے لپٹائے اس قابل کیا کہ وہ چل پھر سکے، اسے اس قابل کیا کہ زندگی میں اپنی حیثیت بنا سکے۔ یہ ماں، یہ عورت اور ایسی کتنی عورتیں ہیں جن کی بیٹیاں گھر سے بھاگ کر شادیاں کرتی ہیں اور وہ اپنے ہی گھر میں ایک زندہ لاش بن جاتی ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے ان کے آنسو نہیں تھمتے۔ کبھی طعنوں سے بچنے کے لیے اپنے بچوں اور خاوند کے ساتھ گھر، محلہ اور شہر تک چھوڑ جاتی ہیں۔ ان کے منہ سے تو بددعائیں بھی نہیں نکل پاتیں۔ بس اتنا بول پاتی ہیں، ’’کاش یہ ہمارے گھر پیدا ہی نہ ہوتی، یا پھر پیدا ہوتے ہی مر جاتی‘‘۔ یہ عورت ان تمام حقوق نسواں کی ولن کیوں ہے۔
اس لیے کہ ان سب کے نزدیک شادی ایک جسمانی ملاپ کا نام ہے جو افراد مل کر طے کرتے ہیں اس لیے ان کو اس میں آزادی ہونی چاہیے۔ جب کہ اسلام اسے صرف ملاپ نہیں بلکہ ایک ارادے کے قیام کی بنیاد سمجھتا ہے۔ ایک ایسا ارادہ جس نے ایک کمزور و ناتواں اولاد کو جو نہ بول سکتی ہے، نہ چل سکتی، نہ صحیح طرح دیکھ اور سن سکتی ہے اس کی پرورش کرنا ہے۔ اسے زندگی کے ہر مرحلے میں آگے بڑھنے کے لیے مدد کرنا ہے۔ اس کی جسمانی، نفسیاتی، علمی، معاشی، معاشرتی یہاں تک کہ روحانی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔
جس طرح ہر ادارے کا ایک ہی سربراہ ہوتا ہے دو نہیں ہوتے۔ اس لیے یہاں بھی مرد کو سربراہ بنایا اور یہ ذمہ داری دی کہ اس کی معیشت تمہارے ذمہ ہے تا کہ عورت اولاد کو پالنے، تربیت دینے کے لیے خاص ہو جائے۔ دنیا کا کوئی ادارہ گاڑی کے دو پہیوں کی طرح دو باس نہیں رکھتا۔ مغرب نے اسے گاڑی کے دو پہیے قرار دے کر اسے تباہ کر دیا۔
ہر ادارہ اپنے لیے بہتر افراد کے انتخاب کے لیے دنیا جہان سے مشورہ کرتا ہے۔ لیکن شادی کو دونوں کے صوابدید پر چھوڑ کر جس طرح مغرب نے اپنے اس خاندان کے ادارے کو تباہ و برباد کیا۔ ہم بھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ وہاں بھی ماں بچوں کو آگ میں جلاتی ہے اور ٹیلی فون کر کے اپنے خاوند کو ان کی چیخیں سنواتی ہے کہ لو میں نے تمہارے بچے جلا دیے اور یہاں بھی ایسا ہونے لگاہے۔ اس لیے کہ تحفظ حقوق نسواں کے نعروں نے اس آنسو بہاتی ماں کو دفن کر دیا اور اب اس کی قبر سے جو ماں برآمد ہوئی ہے وہ بیٹیوں کو زندہ بھی جلاتی ہے اور گلے بھی کاٹتی ہے۔ انسانی ترقی کی اس معراج کا میڈل کس خاتون سماجی کارکن کے سینے پر سجاؤں، شاید ہر کوئی اس کی مستحق ہے۔


0 comments:

Post a Comment

 
Top