theharferaz@yahoo.com
دنیا کا ہر معاشرہ اپنی پسند و ناپسند کا ایک معیار رکھتا ہے اور اس معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ اس کی حساسیت معاشرے کے افراد کی علامت بن جاتی ہے۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ایک جذبہ ایسا ہے جو اس قدر حساس ہے کہ نفسیات دان اسے ا نسانی جبلت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ جذبہ حیاء، شرم، حجاب اور ستر ہے۔
تہذیبی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس جذبے نے نشوونما پائی اور پھر یہ انسان اور جانور کے درمیان فرق کی بنیادی علامت بن گیا۔ حضرت آدم اور حوا کا قصہ دنیا کے ہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پر موجود ہے۔ اس قصے کے مطابق دونوں جنت میں لباس میں موجود تھے۔ لیکن جب ان سے وہ غلطی سرزد ہوئی تو ان کے ستر ان پر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے ستر چھپانے لگے۔ یعنی حیا وہ پہلا عمل تھا جو انسانی جبلت میں شامل ہوا۔ بشریات Anthropology ایک ایسا علم ہے جو انسان کی ارتقائی منازل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔
آج بھی ایمزان کے جنگلوں میں ابتدائی تہذیب کی وہ بستیاں موجود ہیں۔ مارگریٹ میڈ (Margaret Mead) وہ خاتون ہے جو ان معدوم ہوتی بستیوں کا مطالعہ کرنے والی اہم ترین ماہر بشریات سمجھی جاتی ہے، بلکہ یہ علم بہت حد تک اس سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ اس نے جنگلوں، بیابانوں اور دور دراز پہاڑی وادیوں میں ایسے انسانی معاشروں کو دریافت کیا جن تک جدید تہذیب کی روشنی نہیں پہنچی تھی۔ اس کے نزدیک بھی ان معاشروں میں جہاں صرف بنیادی جبلتیں یعنی کھانا، سونا اور جنس اہم تھیں، وہاں بھی مکمل عریانی کہیں موجود نہ تھی بلکہ ستر اور حیا کا ایک معیار ضرور موجود تھا خواہ وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ قرآن اس تہذیبی ارتقاء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتاتا ہے ’’انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔
ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا اور ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر کرنے والابن جائے یا کفر کرنے والا‘‘۔(الدھر 1,2,3)۔ راستہ دراصل ہدایت کا راستہ ہے جو دنیا کو آسمانی مذاہب نے دکھایا۔ یہیں سے انسانی تہذیب کا ارتقاء شروع ہوا اور ہم نے سیکھا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، ایمانداری اور دھوکہ و فریب کسے کہتے ہیں، عہد کی پاسداری اور بدعہدی کیا ہوتی ہے۔
ان اقدار سے بھی بالاتر ایک خاندانی نظام ہے جس کی بنیادیں مذہب نے استوار کیں۔ ماں کا تقدس کیا ہے، بہن اور بھائی کے رشتے کی کیا حدود و قیود ہیں، میاں بیوی کس اہم ذمے داری یعنی ایک لاچار و مجبور بچے کی پرورش، تربیت اور دیکھ بھال کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور اس ذمے داری کو نباہنے کے لیے ان میں جذبہ محبت اور مادری و پدری جذبات کو جبلت کا حصہ بنا دیا گیا۔ انسان کو ان تمام رشتوں کی تعظیم اور احترام سکھانے کے ساتھ ساتھ ہر مذہب نے ایک جذبے کو تہذیب کا حصہ بتایا اور وہ تھا ستر، شرم، حیاء، حجاب اور پاکیزگی۔ اس بنیادی جذبے کی بنیاد پر انسانی رشتوں کی عمارت تعمیر ہوئی۔ انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی انسان نے شرم و حیا اور ستر و حجاب کے تصور کو تار تار کر کے عریانیت و فحاشی کا راستہ اختیار کیا تو زوال نے اس کے دروازے پر دستک دے دی، روم، یونان، مصر، بابل اور ہندوستان کی تہذیبوں کے زوال کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو ان کی تہہ میں عریانی و فحاشی کی وہ حیران کن لہر موجزن نظر آئے گی جو ان تہذیبوں میں سرائیت کر گئی اور پھر وہ کبھی بام عروج کو دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔
فحاشی و عریانی سے وابستہ ایک حساسیت سے جو دنیا کے ہر معاشرے میں پا ئی جاتی ہے، دنیا کے ہر معاشرے نے اس کے لیے عورت اور مرد دونوں کے لیے معیارات مقرر کیئے ہیں۔ یہ حساسیت اس قدر شدید اور ذہنوں میں جبلت کی طرح راسخ ہے کہ اچانک ذرا سی بے لباسی بھی معیوب اور بری محسوس ہونے لگتی ہے۔ بے لباس یاستر نمایاں ہوتے ہی وہ شخص شرم و حیا سے ڈوب جاتا ہے اور اس کے چہرے پر اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ انسان میں صرف چند جذبے ایسے ہیں جن کا اظہار چہروں پر شدت سے ہوتا ہے۔ دکھ میں ہم روتے ہیں، خوشی میں ہم ہنستے ہیں، غصے میں ہم لال پیلے ہو جاتے ہیں اور شرم میں ہمارے چہرے پر ایک شرمندگی والی لالی پھیل جاتی ہے جسے انگریزی میں blush کرنا کہتے ہیں۔
یہ شرمندگی سے پھیلنے والی سرخی یا لالی ہی ہے جسے حیا و شرم کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی تہذیب کے ارتقاء کا حسن ہے۔ دنیا کے کسی بھی جانور میں شرم و حیا اور ستر و حجاب کے جذبات شامل نہیں ہوتے۔ دکھ خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے جانوروں میں ملتے ہیں لیکن عریانی و فحاشی کے معاملے میں جانور جذبوں سے عاری ہیں۔ حیاء، شرم ا ور ستر و حجاب صرف اور صرف انسانی جذبہ ہے اور یہ جانور اور ا نسان میں فرق کرتا ہے اور انسانی تہذیب کی سب سے بڑی علامت ہے ۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کو سابقہ انبیاء کرام کی جو باتیں ملی ہیں ان میں اہم یہ ہے کہ جب تم میں حیا ختم ہو جائے تو پھر تم جو چاہو کرو۔‘‘ (سنن ابن داؤد)۔ پھر فرمایا: ’’ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف رہا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔
(سنن ابن ماجہ) ۔ خبردار کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس شخص میں شرم و حیا نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی، نافرمانی اور فساد برپا کر سکتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔ یعنی فساد کی جڑ بھی حیا کی عدم موجودگی کو بتایا۔ خوبصورتی اور بدصورتی کے معیارات بتاتے ہوئے کہا ’’بے حیائی جس چیز میں ہو گی اسے عیب دار بنا دے گی جب کہ حیا جس چیز میں ہو گی اسے خوبصورت بنا دے گی۔ (سنن اترمذی)
حیا و شرم کے مقابل فحاشی و عریانی ہوتی ہے۔ حیا و شرم ایک ایسی معاشرتی صفت ہے جس کے ساتھ ایک حساسیت وابستہ ہوتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں فحاشی و عریانی ایک دم نہیں پھیلتی۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے معاشرتی رد عمل اس قدر شدید ہوتا ہے کہ الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ لوگوں کو آہستہ آہستہ فحاشی کی جانب مائل کیا جاتا ہے۔ نفسیات دان جدید دنیا میں ایک بہت بڑے طریق علاج کو اختیار کیے ہوئے ہیں جسے Desensatization یعنی حساسیت کو کم کرنا کہتے ہیں۔ ہر شخص جو کسی بھی معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہو اس کو مختلف طریقوں اور مشقوں سے آہستہ سے اس کے قریب کیا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ بالکل حساسیت سے عاری ہو جاتا ہے۔
مثلاً کوئی شخص خرگوشوں سے ڈرتا ہے تو پہلے ایک شیشے کے پیچھے نقلی خرگوش رکھ کر اس کے سامنے اس کا پسندیدہ کھانا رکھا جاتاہے، وہ آہستہ آہستہ ان کی موجودگی میں کھانے لگتا ہے، پھر نقلی کی جگہ اصلی خرگوش لائے جاتے ہیں۔ مدتوں اس طرح اسے عادی کیا جاتا ہے، پھر شیشہ ہٹا دیا جاتا ہے اور بالآخر وہ خرگوشوں کو چھونے بھی لگ جاتا ہے۔ فحاشی و عریانی بھی دو طرح کے خوف کی وجہ سے انسان اختیار نہیں کرتا، ایک معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی خوف کہ ایسا کرنے سے وہ ذلیل و رسوا ہو جائے گا اور دوسرا مذاہب کا بنایا ہوا آخرت کا خوف، یہ دونوں خوف انسان کو فحاشی و عریانی سے دور رکھتے ہیں اور حیا، شرم، ستر، حجاب سے محبت سکھاتے ہیں۔
جدید تہذیب کے میڈیا نے نفسیات کے اس بنیادی طریق کار کو فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ کے لیے اس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے کہ ہر معاشرے میں درجہ بدرجہ، آہستہ آہستہ فحاشی و عریانی کو عام کیا اور پھر معاشروں پر ایک ایسا وقت آیا کہ انھیں اسے دیکھنے، یا اختیار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ ہوئی، حیا و شرم کو کبھی بھی ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اسے آہستہ آہستہ بے شرمی و بے حیائی کے مظاہر سے موت تک پہنچایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی تہذیبوں کا زوال ایسے ہی آیا۔ جدید تہذیب میں ابتدائی فحاشی و عریانی کے وہ مظاہر جو عام پبلک کے لیے تھے وہ 1871ء میں شروع ہوئے۔ اس سے پہلے آرٹسٹ عریاں تصاویر بھی بناتے تھے اور مجسمے بھی لیکن ان کو دیکھنے والوں کی تعداد محدود ہوتی تھی اور عریاں تصاویر و مجسمے بھی اتنے زیادہ نہ تھے۔ لیکن جدید تہذیب کی عریانیت سب سے پہلے کاروباری اور اشتہاری مقاصد کے لیے اختیار کی گئی۔
1871ء میں امریکی کمپنی نے اپنے تمباکو کے پیکٹوں میں کچھ ٹریڈنگ کارڈ رکھے جن پر نیم عریاں جنسی مشاغل کی تصویریں تھیں اور اس طرح 1890ء میں یہ امریکا کا سب سے زیادہ بکنے والا سگریٹ برانڈ بن گیا۔ اس سے پہلے کسی سیلون، شربت اور تمباکو کے اشتہارات لکڑی میں مجسمہ نما کاٹے جاتے تھے اور لکڑی میں جسم کے ابھار ایسے دکھائے جاتے تھے کہ خاتون کے اوپر کا حصہ عریاں محسوس ہو۔ یہ مجسمے دکانوں کے باہر آویزاں ہوتے تھے چونکہ یہ ایک مجسمہ قسم کی چیز تھی اس لیے لوگوں نے اسے اس طرح عریانیت کے طور پر نہ لیا لیکن ان لکڑی کے مجسمہ نما اشتہاروں کی وجہ سے عریانیت کے بارے میں حساسیت کم ہو گئی اور جب سگریٹ کے اس پیک میں نیم عریاں تصاویر آئیں تو انھیں کوئی حیرت نہ ہوئی۔ 1911ء کے آس پاس صابن کی کھپت کو بڑھانے کے لیے اسی عریانیت کا سہارا لیا گیا جس کے لوگ ابھی تھوڑے تھوڑے عادی ہو گئے تھے
۔ ایک امریکی کمپنی نےFacial soap کے اشتہار میں ایک خوبصورت خاتون کی گردن سے تھوڑا سا نیچے لباس کو ڈھلکایا، اس کی گردن کے پیچھے سے ایک آدمی کا آدھا جھانکتا ہوا سر دکھایا، ایسے جیسے وہ جسم کی خوشبو سونگھ رہا ہو اور اس عورت کو ہاتھوں کی نرماہٹ کے ساتھ مرد کو پکڑے ہوئے دکھایا گیا اور اشتہار پر لکھا تھا ’’A Skin You Love to Touch‘‘ (ایسی جلد جسے آپ چھونا پسند کریں)۔ بس پھر کیا تھا، لوگ جن کی فحاشی کے بارے میں حساسیت پہلے سے کم ہو گئی تھی انھوں نے اسے اتنا پسند کیا کہ ووڈبری کے خواتین کے حسن کے مراکز Beauty Bars دوبارہ کھل گئے۔ عورتیں اپنی جلد کی نرماہٹ میں مگن ہو گئیں اور مردوں کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ کتنے بڑے معاشرتی بندھن کو توڑ چکے ہیں۔
(جاری ہے)
تہذیبی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس جذبے نے نشوونما پائی اور پھر یہ انسان اور جانور کے درمیان فرق کی بنیادی علامت بن گیا۔ حضرت آدم اور حوا کا قصہ دنیا کے ہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پر موجود ہے۔ اس قصے کے مطابق دونوں جنت میں لباس میں موجود تھے۔ لیکن جب ان سے وہ غلطی سرزد ہوئی تو ان کے ستر ان پر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے ستر چھپانے لگے۔ یعنی حیا وہ پہلا عمل تھا جو انسانی جبلت میں شامل ہوا۔ بشریات Anthropology ایک ایسا علم ہے جو انسان کی ارتقائی منازل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔
آج بھی ایمزان کے جنگلوں میں ابتدائی تہذیب کی وہ بستیاں موجود ہیں۔ مارگریٹ میڈ (Margaret Mead) وہ خاتون ہے جو ان معدوم ہوتی بستیوں کا مطالعہ کرنے والی اہم ترین ماہر بشریات سمجھی جاتی ہے، بلکہ یہ علم بہت حد تک اس سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ اس نے جنگلوں، بیابانوں اور دور دراز پہاڑی وادیوں میں ایسے انسانی معاشروں کو دریافت کیا جن تک جدید تہذیب کی روشنی نہیں پہنچی تھی۔ اس کے نزدیک بھی ان معاشروں میں جہاں صرف بنیادی جبلتیں یعنی کھانا، سونا اور جنس اہم تھیں، وہاں بھی مکمل عریانی کہیں موجود نہ تھی بلکہ ستر اور حیا کا ایک معیار ضرور موجود تھا خواہ وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ قرآن اس تہذیبی ارتقاء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتاتا ہے ’’انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔
ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا اور ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر کرنے والابن جائے یا کفر کرنے والا‘‘۔(الدھر 1,2,3)۔ راستہ دراصل ہدایت کا راستہ ہے جو دنیا کو آسمانی مذاہب نے دکھایا۔ یہیں سے انسانی تہذیب کا ارتقاء شروع ہوا اور ہم نے سیکھا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، ایمانداری اور دھوکہ و فریب کسے کہتے ہیں، عہد کی پاسداری اور بدعہدی کیا ہوتی ہے۔
ان اقدار سے بھی بالاتر ایک خاندانی نظام ہے جس کی بنیادیں مذہب نے استوار کیں۔ ماں کا تقدس کیا ہے، بہن اور بھائی کے رشتے کی کیا حدود و قیود ہیں، میاں بیوی کس اہم ذمے داری یعنی ایک لاچار و مجبور بچے کی پرورش، تربیت اور دیکھ بھال کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور اس ذمے داری کو نباہنے کے لیے ان میں جذبہ محبت اور مادری و پدری جذبات کو جبلت کا حصہ بنا دیا گیا۔ انسان کو ان تمام رشتوں کی تعظیم اور احترام سکھانے کے ساتھ ساتھ ہر مذہب نے ایک جذبے کو تہذیب کا حصہ بتایا اور وہ تھا ستر، شرم، حیاء، حجاب اور پاکیزگی۔ اس بنیادی جذبے کی بنیاد پر انسانی رشتوں کی عمارت تعمیر ہوئی۔ انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی انسان نے شرم و حیا اور ستر و حجاب کے تصور کو تار تار کر کے عریانیت و فحاشی کا راستہ اختیار کیا تو زوال نے اس کے دروازے پر دستک دے دی، روم، یونان، مصر، بابل اور ہندوستان کی تہذیبوں کے زوال کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو ان کی تہہ میں عریانی و فحاشی کی وہ حیران کن لہر موجزن نظر آئے گی جو ان تہذیبوں میں سرائیت کر گئی اور پھر وہ کبھی بام عروج کو دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔
فحاشی و عریانی سے وابستہ ایک حساسیت سے جو دنیا کے ہر معاشرے میں پا ئی جاتی ہے، دنیا کے ہر معاشرے نے اس کے لیے عورت اور مرد دونوں کے لیے معیارات مقرر کیئے ہیں۔ یہ حساسیت اس قدر شدید اور ذہنوں میں جبلت کی طرح راسخ ہے کہ اچانک ذرا سی بے لباسی بھی معیوب اور بری محسوس ہونے لگتی ہے۔ بے لباس یاستر نمایاں ہوتے ہی وہ شخص شرم و حیا سے ڈوب جاتا ہے اور اس کے چہرے پر اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ انسان میں صرف چند جذبے ایسے ہیں جن کا اظہار چہروں پر شدت سے ہوتا ہے۔ دکھ میں ہم روتے ہیں، خوشی میں ہم ہنستے ہیں، غصے میں ہم لال پیلے ہو جاتے ہیں اور شرم میں ہمارے چہرے پر ایک شرمندگی والی لالی پھیل جاتی ہے جسے انگریزی میں blush کرنا کہتے ہیں۔
یہ شرمندگی سے پھیلنے والی سرخی یا لالی ہی ہے جسے حیا و شرم کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی تہذیب کے ارتقاء کا حسن ہے۔ دنیا کے کسی بھی جانور میں شرم و حیا اور ستر و حجاب کے جذبات شامل نہیں ہوتے۔ دکھ خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے جانوروں میں ملتے ہیں لیکن عریانی و فحاشی کے معاملے میں جانور جذبوں سے عاری ہیں۔ حیاء، شرم ا ور ستر و حجاب صرف اور صرف انسانی جذبہ ہے اور یہ جانور اور ا نسان میں فرق کرتا ہے اور انسانی تہذیب کی سب سے بڑی علامت ہے ۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کو سابقہ انبیاء کرام کی جو باتیں ملی ہیں ان میں اہم یہ ہے کہ جب تم میں حیا ختم ہو جائے تو پھر تم جو چاہو کرو۔‘‘ (سنن ابن داؤد)۔ پھر فرمایا: ’’ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف رہا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔
(سنن ابن ماجہ) ۔ خبردار کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس شخص میں شرم و حیا نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی، نافرمانی اور فساد برپا کر سکتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔ یعنی فساد کی جڑ بھی حیا کی عدم موجودگی کو بتایا۔ خوبصورتی اور بدصورتی کے معیارات بتاتے ہوئے کہا ’’بے حیائی جس چیز میں ہو گی اسے عیب دار بنا دے گی جب کہ حیا جس چیز میں ہو گی اسے خوبصورت بنا دے گی۔ (سنن اترمذی)
حیا و شرم کے مقابل فحاشی و عریانی ہوتی ہے۔ حیا و شرم ایک ایسی معاشرتی صفت ہے جس کے ساتھ ایک حساسیت وابستہ ہوتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں فحاشی و عریانی ایک دم نہیں پھیلتی۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے معاشرتی رد عمل اس قدر شدید ہوتا ہے کہ الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ لوگوں کو آہستہ آہستہ فحاشی کی جانب مائل کیا جاتا ہے۔ نفسیات دان جدید دنیا میں ایک بہت بڑے طریق علاج کو اختیار کیے ہوئے ہیں جسے Desensatization یعنی حساسیت کو کم کرنا کہتے ہیں۔ ہر شخص جو کسی بھی معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہو اس کو مختلف طریقوں اور مشقوں سے آہستہ سے اس کے قریب کیا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ بالکل حساسیت سے عاری ہو جاتا ہے۔
مثلاً کوئی شخص خرگوشوں سے ڈرتا ہے تو پہلے ایک شیشے کے پیچھے نقلی خرگوش رکھ کر اس کے سامنے اس کا پسندیدہ کھانا رکھا جاتاہے، وہ آہستہ آہستہ ان کی موجودگی میں کھانے لگتا ہے، پھر نقلی کی جگہ اصلی خرگوش لائے جاتے ہیں۔ مدتوں اس طرح اسے عادی کیا جاتا ہے، پھر شیشہ ہٹا دیا جاتا ہے اور بالآخر وہ خرگوشوں کو چھونے بھی لگ جاتا ہے۔ فحاشی و عریانی بھی دو طرح کے خوف کی وجہ سے انسان اختیار نہیں کرتا، ایک معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی خوف کہ ایسا کرنے سے وہ ذلیل و رسوا ہو جائے گا اور دوسرا مذاہب کا بنایا ہوا آخرت کا خوف، یہ دونوں خوف انسان کو فحاشی و عریانی سے دور رکھتے ہیں اور حیا، شرم، ستر، حجاب سے محبت سکھاتے ہیں۔
جدید تہذیب کے میڈیا نے نفسیات کے اس بنیادی طریق کار کو فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ کے لیے اس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے کہ ہر معاشرے میں درجہ بدرجہ، آہستہ آہستہ فحاشی و عریانی کو عام کیا اور پھر معاشروں پر ایک ایسا وقت آیا کہ انھیں اسے دیکھنے، یا اختیار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ ہوئی، حیا و شرم کو کبھی بھی ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اسے آہستہ آہستہ بے شرمی و بے حیائی کے مظاہر سے موت تک پہنچایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی تہذیبوں کا زوال ایسے ہی آیا۔ جدید تہذیب میں ابتدائی فحاشی و عریانی کے وہ مظاہر جو عام پبلک کے لیے تھے وہ 1871ء میں شروع ہوئے۔ اس سے پہلے آرٹسٹ عریاں تصاویر بھی بناتے تھے اور مجسمے بھی لیکن ان کو دیکھنے والوں کی تعداد محدود ہوتی تھی اور عریاں تصاویر و مجسمے بھی اتنے زیادہ نہ تھے۔ لیکن جدید تہذیب کی عریانیت سب سے پہلے کاروباری اور اشتہاری مقاصد کے لیے اختیار کی گئی۔
1871ء میں امریکی کمپنی نے اپنے تمباکو کے پیکٹوں میں کچھ ٹریڈنگ کارڈ رکھے جن پر نیم عریاں جنسی مشاغل کی تصویریں تھیں اور اس طرح 1890ء میں یہ امریکا کا سب سے زیادہ بکنے والا سگریٹ برانڈ بن گیا۔ اس سے پہلے کسی سیلون، شربت اور تمباکو کے اشتہارات لکڑی میں مجسمہ نما کاٹے جاتے تھے اور لکڑی میں جسم کے ابھار ایسے دکھائے جاتے تھے کہ خاتون کے اوپر کا حصہ عریاں محسوس ہو۔ یہ مجسمے دکانوں کے باہر آویزاں ہوتے تھے چونکہ یہ ایک مجسمہ قسم کی چیز تھی اس لیے لوگوں نے اسے اس طرح عریانیت کے طور پر نہ لیا لیکن ان لکڑی کے مجسمہ نما اشتہاروں کی وجہ سے عریانیت کے بارے میں حساسیت کم ہو گئی اور جب سگریٹ کے اس پیک میں نیم عریاں تصاویر آئیں تو انھیں کوئی حیرت نہ ہوئی۔ 1911ء کے آس پاس صابن کی کھپت کو بڑھانے کے لیے اسی عریانیت کا سہارا لیا گیا جس کے لوگ ابھی تھوڑے تھوڑے عادی ہو گئے تھے
۔ ایک امریکی کمپنی نےFacial soap کے اشتہار میں ایک خوبصورت خاتون کی گردن سے تھوڑا سا نیچے لباس کو ڈھلکایا، اس کی گردن کے پیچھے سے ایک آدمی کا آدھا جھانکتا ہوا سر دکھایا، ایسے جیسے وہ جسم کی خوشبو سونگھ رہا ہو اور اس عورت کو ہاتھوں کی نرماہٹ کے ساتھ مرد کو پکڑے ہوئے دکھایا گیا اور اشتہار پر لکھا تھا ’’A Skin You Love to Touch‘‘ (ایسی جلد جسے آپ چھونا پسند کریں)۔ بس پھر کیا تھا، لوگ جن کی فحاشی کے بارے میں حساسیت پہلے سے کم ہو گئی تھی انھوں نے اسے اتنا پسند کیا کہ ووڈبری کے خواتین کے حسن کے مراکز Beauty Bars دوبارہ کھل گئے۔ عورتیں اپنی جلد کی نرماہٹ میں مگن ہو گئیں اور مردوں کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ کتنے بڑے معاشرتی بندھن کو توڑ چکے ہیں۔
(جاری ہے)
0 comments:
Post a Comment