theharferaz@yahoo.com
گھیٹو (GHETTO)، پوری دنیا میں کسی شہر کے ایسے حصے کو کہتے ہیں، جہاں کوئی خاص اقلیتی گروہ اکثریتی آبادی کی نفرت، رویے اور ظلم و تشدد سے تنگ آ کر آباد ہو جائے یا اسے بزور طاقت اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں آباد ہونے کے لیے مجبورکیا جائے۔ سب سے پہلے یہ لفظ اٹلی کے خوبصورت شہر وینس میں ایک ایسے علاقے کے لیے بولا گیا جہاں یہودیوں کو زبردستی دھکیلا گیا تھا۔
یہودی وہاں مدتوں سے آباد تھے کیونکہ وینس ایک بندرگاہ ہونے کی وجہ سے معاشی مرکز کہلاتا تھا۔ وینس دراصل ایک سو سترہ (117) جزیروں پر مشتمل ایک شہر ہے جس کے بیچ نہریں گزرتی ہیں جو سمندر میں جا ملتی ہیں۔ نہروں پر پل بنے ہوئے ہیں جو جزیروں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ نویں صدی عیسوی سے یہ شہر ایک نیم خودمختار شہری ریاست کے طور پر قائم تھا۔ یہاں کے بحری قزاق بھی بہت مشہور تھے اور یہودی بھی، شیکسپیئر کا مشہور کردار شائلی لاک اسی شہر سے تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران اس شہر نے مسلمانوں پر حملوں کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ 29 مارچ 1516ء میں وینس کی حکومت نے یہودیوں کے خلاف چند قوانین منظور کیے۔
ان میں سے پہلا قانون یہ تھا کہ وہ ایک ایسے علاقے میں جا کر آباد ہو جائیں جہاں پہلے کبھی لوہے کی بھٹیاں تھیں اور اب یہ علاقہ بے آباد تھا۔ انھیں اپنے گلے میں مخصوص نشان لٹکانے کو کہا گیا۔ وینس کی زبان میں لوہے کی بھٹی کو گیٹی ’’GETTI‘‘ کہا جاتا ہے اس لیے اس کا نام گھیٹو پڑ گیا۔ یہ علاقہ شہری سہولیات سے خالی تھا۔ رات کو اسے بند کر دیا جاتا۔ یہودی اس لفظ کو اس لیے اپنانے لگے کیونکہ عبرانی زبان میں اس کا مطلب ’’ایک جگہ جہاں میاں بیوی میں زبردستی جدائی کرائی جائے‘‘ تھا۔ 1797ء میں جب فرانس کے نپولین بوناپارٹ نے وینس فتح کیا تو یہودیوں کو وہاں سے نکال کر پورے شہر میں آباد کیا۔ اس وقت سے آج تک جہاں کہیں کسی شہر میں کوئی اقلیتی آبادی اکثریت کے ظلم و تشدد اور نفرت سے تنگ آ کر کسی مخصوص جگہ آباد ہو جائے یا اسے زبردستی آباد کر دیا جائے، اسے عرف عام میں گھیٹو کہا جاتا ہے۔ امریکا جیسے مہذب ملک میں آج بھی سیاہ فام لوگوں کے گھیٹو موجود ہیں۔
پوری دنیا میں اس وقت مسلمانوں کا بھی ایک بہت بڑا گھیٹو ہے جس کی آبادی تقریباً 7 لاکھ ہے۔ اس کا نام ’’جوہا پورہ‘‘ ہے۔ یہ بھارت کے شہر احمد آباد سے مغرب کی جانب چند کلو میٹر پر واقع ہے۔ 1973ء میں اندرا گاندھی نے یہاں سیلاب زدگان کوآباد کرنے کے لیے چند مکانات تعمیر کیے تھے۔ نریندر مودی کے شہر احمد آباد میں 1985ء میں پہلا مسلم کش فساد ہوا تو کچھ مسلمان خوف کے مارے یہاں آ کر آباد ہو گئے۔ اس کے بعد جب بھی کبھی فساد پھوٹتے کچھ اور مسلمان گھرانے اپنے آبائی گھر چھوڑ کے اس ویرانے میں آ کر آباد ہو جاتے۔
2002ء تک یہاں پچاس ہزار مسلمان آباد ہو چکے تھے لیکن جیسے ہی گودھرا میں ٹرین کی آتشزدگی کے بعد مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا، سرعام عورتوں سے زیادتی اور گھروں میں زندہ جلانے سے لے کر شدید تشدد سے مسلمان خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگے تو وہ سیدھا جوہا پورہ پہنچے جہاں 2004ء تک ان کی تعداد چار لاکھ ہو گئی۔ اب اردگرد سے جو کوئی ہندوؤں کے خوف سے بھاگتا ہے تو جوہا پورہ میں آ کر آباد ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں گھیٹو کی پہچان یہ ہے کہ تمام تر سہولیات اور ترقی اس کے دروازوں تک آ کر ختم ہو جاتی ہے۔
یہی حال جوہا پورہ کا ہے۔ پکی سڑکیں، اسٹریٹ لائٹ، پانی کے پائپ، سیوریج سسٹم، اسپتال، اسکول، سب کے سب جوہا پورہ کے آس پاس تو ہیں لیکن وہاں کے لوگ اس سے محروم ہیں۔ مسلمانوں نے خود اپنے لیے سہولیات کا بندوبست کر رکھاہے۔انھوں نے یہاں اسپتال، اسکول اور لائبریریاں تک بنائی ہیں۔ مسلمان چونکہ بہترین کاریگر ہیں اور یہاں علیحدہ آبادی کی وجہ سے ان کے کام میں خلل نہیں پڑتا اور نہ ہی کوئی خوف انھیں کام سے روکتا ہے اس لیے وہ معاشی طور پر بہتر ہوئے ہیں۔ وہ ریاست سے آزاد ہو چکے۔ اب سب کچھ وہ خود کرتے ہیں۔
اس آبادی اور ہندو آبادی کو جو سڑک تقسیم کرتی ہے اسے پولیس لائن کہتے ہیں۔ گجرات کے ایک صحافی نے لکھا کہ گجرات میں خوف استقدر تھا کہ میں لوگوں کو اپنا نام نہیں بتاتا تھا۔ میں نے ایک دن جوہاپورہ میں جانے کا فیصلہ کیا۔ رکشے والے نے مجھے سرحد پر اتار دیا اور اندر جانے سے انکار کیا۔ میں نے تھانے میں جا کر اپنا تعارف کروا دیا اور اپنا ہندو نام ظاہر کیا۔ اس نے میرے جوہا پورہ جانے کے ارادے پر اچانک کہا اوہ تم ’’پاکستان‘‘ جانا چاہتے ہو۔ سارا احمد آباد اسے پاکستان کہتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے عیدالاضحیٰ سے ایک دن پہلے وہاں گھر کرائے پر لیا۔ صبح میں عید والے کپڑے اور ٹوپی پہن کر باہر نکلا تو بے شمار مسلمان اس بلڈنگ سے باہر نکل کر کھڑے تھے۔
ایک بزرگ نے مجھ سے کہا، نوجوان تم نئے آئے ہو، تمہارا نام کیا ہے، میں نے چودہ سال بعد پوری آزادی سے اپنا پورا نام ظاہر سجاد جان محمد بولا۔ میں حیرت میں گم ان چودہ سالوں پر غور کر رہا تھا جب میں اپنا نام سنجے بتایا کرتا تھا۔ میں جوکیلیفورنیا سے پڑھ کر آیا تھا۔ میرا باپ جو مہاتما گاندھی کا عاشق تھا۔ مجھے روپا آنٹی راکھی باندھتی تھی۔ میں فسادات کے کچھ دنوں بعد بھارت آیا۔ خوفزدہ ظاہر سجاد جو ایک سیکولر زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ اسے یہاں رہنے، گھر کرائے پر لینے کے لیے ہندو نام اختیار کرنا پڑا۔ اس نے جب فساد زدہ علاقوں نرودہ پاتبہ، گلبرگ اور پالدی جیسے علاقوں میں ان مسلمانوں کے انٹرویو شروع کیے جو فساد کا شکار ہوئے تو اسے تو ہندو سمجھ کر معاف کر دیا جاتا مگر انٹرویو دینے والے مسلمان قتل کر دیے جاتے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس نے گزشتہ سال ندیم سید ایک لڑکے سے نرودہ پاتیہ کے فساد کے بارے میں انٹرویو لیا لیکن چند ہفتوں بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ غصے کا عالم یہ تھا کہ اس کے جسم میں اٹھائیس دفعہ چاقو گھونپا گیا۔
پوری دنیا میں گجرات ماڈل کو معاشی ترقی کا ایک شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی ماڈل تھا جس کی بنیاد پر نریندر مودی کو پوری دنیا نے کارپوریٹ، سرمایہ داروں میں شہرت حاصل کی اور انھوں نے اس کے الیکشن میں بے تحاشہ سرمایہ لگا کر اس کو جتوایا۔ احمد آباد بھارت کا سب سے مقبول شہر ہے جہاں رہائش رکھنے والوں کے لیے لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے شاپنگ مال ہیں، فلائی اوورز اور انڈر پاسوں کی وجہ سے سگنل فری سڑکیں ہیں۔ ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ہے۔ یہ واحد شہر ہے جہاں گھروں تک گیس میسر ہے، بہترین سیوریج اور واٹر سپلائی کا نظام ہے۔ آسمان کو چھوتی بلڈنگیں اسے کسی بھی ترقی یافتہ مغربی شہر کا ہم پلہ بناتی ہیں۔
اسی خوبصورت ترقی یافتہ اور شاندار شہر کے پہلو میں خوفزدہ سات لاکھ مسلمانوں کی ایک آبادی ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے اس لیے نکالے گئے کہ وہ کلمہ طیبہ لاالہ اللہ پڑھتے تھے۔ جن کی عورتوں کے ساتھ چوراہوں میں ہجوم کے سامنے زیادتی کی گئی۔ جنھیں گھروں میں بند کر کے زندہ جلا دیا گیا۔ یہ لوگ جس جوہا پورہ کے گھیٹو میں آباد ہیں وہاں سرکاری اسکول اور اسپتال نہیں، وہاں سرکاری سیوریج سسٹم نہیں، وہاں جانا ہے تو آپ دو رکشوں میں سوار ہوتے ہیں، ایک باہر سے جوہا پورہ کے بارڈر تک اور دوسرا جوہا پورہ کے اندر جانے کے لیے۔ وہاں بدبو ہے، تعفن ہے، بیماری ہے، آبادی کے شروع میں ایک بہت بڑا کیمپ ہے۔ یہاں ہر وہ مسلمان جو ہندوؤں کے تشدد یا خوف سے تنگ آ کر اپنا گھر چھوڑ کر آ جائے اسے رکھا جاتا ہے۔ ایک بزرگ نے جو احمد آباد سے نیا نیا اس علاقے میں آیا تھا اس نے ایک صحافی رعنا ایوب کو بتایا کہ اس کے چچا وغیرہ جب پاکستان گئے تھے تو بتاتے ہیں کہ انھوں نے وہاں پہنچ کر سجدہ کیا تھا کہ یہ امن کی جگہ ہے۔ مجھے جوہا پورہ میں آ کر بھی یہی محسوس ہو رہا ہے۔
رعنا ایوب نے اس سانحے پر ایک کتاب Gujrat Fire ترتیب دی ہے جسے بھارت میں کوئی چھاپنے پر تیار نہ تھا۔ بالآخر اس نے اسے خود چھاپا۔ اس کتاب میں مظالم کی ایک ایسی داستان بیان کی گئی ہے کہ چند صفحے بھی پڑھے نہیں جاتے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کو جائے امن نہیں سمجھتے انھیں کسی ٹرین میں بٹھا کر احمد آباد چھوڑ دیا جائے، وہ اپنے ناموں وجاہت، حسنین، حنیف، نجم وغیرہ کے ساتھ اس شہر میں رہنے کی کوشش کریں۔ نفرت سہیں، تشدد برداشت کریں اور انھیں جوہاپورہ میں پناہ ملے، جسے سارا شہر پاکستان کہتا ہو اور وہ وہاں پہنچ کر ویسے ہی سجدہ ریز ہوں جیسے 1947ء میں لٹے پٹے مسافر پاکستان کی سرزمین کی مٹی کو چھو کر فرط جذبات سے سجدہ ریز ہو جاتے تھے۔
یہودی وہاں مدتوں سے آباد تھے کیونکہ وینس ایک بندرگاہ ہونے کی وجہ سے معاشی مرکز کہلاتا تھا۔ وینس دراصل ایک سو سترہ (117) جزیروں پر مشتمل ایک شہر ہے جس کے بیچ نہریں گزرتی ہیں جو سمندر میں جا ملتی ہیں۔ نہروں پر پل بنے ہوئے ہیں جو جزیروں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ نویں صدی عیسوی سے یہ شہر ایک نیم خودمختار شہری ریاست کے طور پر قائم تھا۔ یہاں کے بحری قزاق بھی بہت مشہور تھے اور یہودی بھی، شیکسپیئر کا مشہور کردار شائلی لاک اسی شہر سے تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران اس شہر نے مسلمانوں پر حملوں کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ 29 مارچ 1516ء میں وینس کی حکومت نے یہودیوں کے خلاف چند قوانین منظور کیے۔
ان میں سے پہلا قانون یہ تھا کہ وہ ایک ایسے علاقے میں جا کر آباد ہو جائیں جہاں پہلے کبھی لوہے کی بھٹیاں تھیں اور اب یہ علاقہ بے آباد تھا۔ انھیں اپنے گلے میں مخصوص نشان لٹکانے کو کہا گیا۔ وینس کی زبان میں لوہے کی بھٹی کو گیٹی ’’GETTI‘‘ کہا جاتا ہے اس لیے اس کا نام گھیٹو پڑ گیا۔ یہ علاقہ شہری سہولیات سے خالی تھا۔ رات کو اسے بند کر دیا جاتا۔ یہودی اس لفظ کو اس لیے اپنانے لگے کیونکہ عبرانی زبان میں اس کا مطلب ’’ایک جگہ جہاں میاں بیوی میں زبردستی جدائی کرائی جائے‘‘ تھا۔ 1797ء میں جب فرانس کے نپولین بوناپارٹ نے وینس فتح کیا تو یہودیوں کو وہاں سے نکال کر پورے شہر میں آباد کیا۔ اس وقت سے آج تک جہاں کہیں کسی شہر میں کوئی اقلیتی آبادی اکثریت کے ظلم و تشدد اور نفرت سے تنگ آ کر کسی مخصوص جگہ آباد ہو جائے یا اسے زبردستی آباد کر دیا جائے، اسے عرف عام میں گھیٹو کہا جاتا ہے۔ امریکا جیسے مہذب ملک میں آج بھی سیاہ فام لوگوں کے گھیٹو موجود ہیں۔
پوری دنیا میں اس وقت مسلمانوں کا بھی ایک بہت بڑا گھیٹو ہے جس کی آبادی تقریباً 7 لاکھ ہے۔ اس کا نام ’’جوہا پورہ‘‘ ہے۔ یہ بھارت کے شہر احمد آباد سے مغرب کی جانب چند کلو میٹر پر واقع ہے۔ 1973ء میں اندرا گاندھی نے یہاں سیلاب زدگان کوآباد کرنے کے لیے چند مکانات تعمیر کیے تھے۔ نریندر مودی کے شہر احمد آباد میں 1985ء میں پہلا مسلم کش فساد ہوا تو کچھ مسلمان خوف کے مارے یہاں آ کر آباد ہو گئے۔ اس کے بعد جب بھی کبھی فساد پھوٹتے کچھ اور مسلمان گھرانے اپنے آبائی گھر چھوڑ کے اس ویرانے میں آ کر آباد ہو جاتے۔
2002ء تک یہاں پچاس ہزار مسلمان آباد ہو چکے تھے لیکن جیسے ہی گودھرا میں ٹرین کی آتشزدگی کے بعد مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا، سرعام عورتوں سے زیادتی اور گھروں میں زندہ جلانے سے لے کر شدید تشدد سے مسلمان خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگے تو وہ سیدھا جوہا پورہ پہنچے جہاں 2004ء تک ان کی تعداد چار لاکھ ہو گئی۔ اب اردگرد سے جو کوئی ہندوؤں کے خوف سے بھاگتا ہے تو جوہا پورہ میں آ کر آباد ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں گھیٹو کی پہچان یہ ہے کہ تمام تر سہولیات اور ترقی اس کے دروازوں تک آ کر ختم ہو جاتی ہے۔
یہی حال جوہا پورہ کا ہے۔ پکی سڑکیں، اسٹریٹ لائٹ، پانی کے پائپ، سیوریج سسٹم، اسپتال، اسکول، سب کے سب جوہا پورہ کے آس پاس تو ہیں لیکن وہاں کے لوگ اس سے محروم ہیں۔ مسلمانوں نے خود اپنے لیے سہولیات کا بندوبست کر رکھاہے۔انھوں نے یہاں اسپتال، اسکول اور لائبریریاں تک بنائی ہیں۔ مسلمان چونکہ بہترین کاریگر ہیں اور یہاں علیحدہ آبادی کی وجہ سے ان کے کام میں خلل نہیں پڑتا اور نہ ہی کوئی خوف انھیں کام سے روکتا ہے اس لیے وہ معاشی طور پر بہتر ہوئے ہیں۔ وہ ریاست سے آزاد ہو چکے۔ اب سب کچھ وہ خود کرتے ہیں۔
اس آبادی اور ہندو آبادی کو جو سڑک تقسیم کرتی ہے اسے پولیس لائن کہتے ہیں۔ گجرات کے ایک صحافی نے لکھا کہ گجرات میں خوف استقدر تھا کہ میں لوگوں کو اپنا نام نہیں بتاتا تھا۔ میں نے ایک دن جوہاپورہ میں جانے کا فیصلہ کیا۔ رکشے والے نے مجھے سرحد پر اتار دیا اور اندر جانے سے انکار کیا۔ میں نے تھانے میں جا کر اپنا تعارف کروا دیا اور اپنا ہندو نام ظاہر کیا۔ اس نے میرے جوہا پورہ جانے کے ارادے پر اچانک کہا اوہ تم ’’پاکستان‘‘ جانا چاہتے ہو۔ سارا احمد آباد اسے پاکستان کہتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے عیدالاضحیٰ سے ایک دن پہلے وہاں گھر کرائے پر لیا۔ صبح میں عید والے کپڑے اور ٹوپی پہن کر باہر نکلا تو بے شمار مسلمان اس بلڈنگ سے باہر نکل کر کھڑے تھے۔
ایک بزرگ نے مجھ سے کہا، نوجوان تم نئے آئے ہو، تمہارا نام کیا ہے، میں نے چودہ سال بعد پوری آزادی سے اپنا پورا نام ظاہر سجاد جان محمد بولا۔ میں حیرت میں گم ان چودہ سالوں پر غور کر رہا تھا جب میں اپنا نام سنجے بتایا کرتا تھا۔ میں جوکیلیفورنیا سے پڑھ کر آیا تھا۔ میرا باپ جو مہاتما گاندھی کا عاشق تھا۔ مجھے روپا آنٹی راکھی باندھتی تھی۔ میں فسادات کے کچھ دنوں بعد بھارت آیا۔ خوفزدہ ظاہر سجاد جو ایک سیکولر زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ اسے یہاں رہنے، گھر کرائے پر لینے کے لیے ہندو نام اختیار کرنا پڑا۔ اس نے جب فساد زدہ علاقوں نرودہ پاتبہ، گلبرگ اور پالدی جیسے علاقوں میں ان مسلمانوں کے انٹرویو شروع کیے جو فساد کا شکار ہوئے تو اسے تو ہندو سمجھ کر معاف کر دیا جاتا مگر انٹرویو دینے والے مسلمان قتل کر دیے جاتے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس نے گزشتہ سال ندیم سید ایک لڑکے سے نرودہ پاتیہ کے فساد کے بارے میں انٹرویو لیا لیکن چند ہفتوں بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ غصے کا عالم یہ تھا کہ اس کے جسم میں اٹھائیس دفعہ چاقو گھونپا گیا۔
پوری دنیا میں گجرات ماڈل کو معاشی ترقی کا ایک شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی ماڈل تھا جس کی بنیاد پر نریندر مودی کو پوری دنیا نے کارپوریٹ، سرمایہ داروں میں شہرت حاصل کی اور انھوں نے اس کے الیکشن میں بے تحاشہ سرمایہ لگا کر اس کو جتوایا۔ احمد آباد بھارت کا سب سے مقبول شہر ہے جہاں رہائش رکھنے والوں کے لیے لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے شاپنگ مال ہیں، فلائی اوورز اور انڈر پاسوں کی وجہ سے سگنل فری سڑکیں ہیں۔ ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ہے۔ یہ واحد شہر ہے جہاں گھروں تک گیس میسر ہے، بہترین سیوریج اور واٹر سپلائی کا نظام ہے۔ آسمان کو چھوتی بلڈنگیں اسے کسی بھی ترقی یافتہ مغربی شہر کا ہم پلہ بناتی ہیں۔
اسی خوبصورت ترقی یافتہ اور شاندار شہر کے پہلو میں خوفزدہ سات لاکھ مسلمانوں کی ایک آبادی ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے اس لیے نکالے گئے کہ وہ کلمہ طیبہ لاالہ اللہ پڑھتے تھے۔ جن کی عورتوں کے ساتھ چوراہوں میں ہجوم کے سامنے زیادتی کی گئی۔ جنھیں گھروں میں بند کر کے زندہ جلا دیا گیا۔ یہ لوگ جس جوہا پورہ کے گھیٹو میں آباد ہیں وہاں سرکاری اسکول اور اسپتال نہیں، وہاں سرکاری سیوریج سسٹم نہیں، وہاں جانا ہے تو آپ دو رکشوں میں سوار ہوتے ہیں، ایک باہر سے جوہا پورہ کے بارڈر تک اور دوسرا جوہا پورہ کے اندر جانے کے لیے۔ وہاں بدبو ہے، تعفن ہے، بیماری ہے، آبادی کے شروع میں ایک بہت بڑا کیمپ ہے۔ یہاں ہر وہ مسلمان جو ہندوؤں کے تشدد یا خوف سے تنگ آ کر اپنا گھر چھوڑ کر آ جائے اسے رکھا جاتا ہے۔ ایک بزرگ نے جو احمد آباد سے نیا نیا اس علاقے میں آیا تھا اس نے ایک صحافی رعنا ایوب کو بتایا کہ اس کے چچا وغیرہ جب پاکستان گئے تھے تو بتاتے ہیں کہ انھوں نے وہاں پہنچ کر سجدہ کیا تھا کہ یہ امن کی جگہ ہے۔ مجھے جوہا پورہ میں آ کر بھی یہی محسوس ہو رہا ہے۔
رعنا ایوب نے اس سانحے پر ایک کتاب Gujrat Fire ترتیب دی ہے جسے بھارت میں کوئی چھاپنے پر تیار نہ تھا۔ بالآخر اس نے اسے خود چھاپا۔ اس کتاب میں مظالم کی ایک ایسی داستان بیان کی گئی ہے کہ چند صفحے بھی پڑھے نہیں جاتے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کو جائے امن نہیں سمجھتے انھیں کسی ٹرین میں بٹھا کر احمد آباد چھوڑ دیا جائے، وہ اپنے ناموں وجاہت، حسنین، حنیف، نجم وغیرہ کے ساتھ اس شہر میں رہنے کی کوشش کریں۔ نفرت سہیں، تشدد برداشت کریں اور انھیں جوہاپورہ میں پناہ ملے، جسے سارا شہر پاکستان کہتا ہو اور وہ وہاں پہنچ کر ویسے ہی سجدہ ریز ہوں جیسے 1947ء میں لٹے پٹے مسافر پاکستان کی سرزمین کی مٹی کو چھو کر فرط جذبات سے سجدہ ریز ہو جاتے تھے۔
0 comments:
Post a Comment