theharferaz@yahoo.com
بزرگ بلوچ رہنما سردار عطاء اللہ مینگل نے چند سال پہلے بلوچ نوجوانوں سے ملاقات کے دوران ایک پتے کی بات کی تھی۔ کہا ’’آزادی حاصل کرنا آسان ہے لیکن ان پڑوسیوں اور عالمی طاقتوں کے عزائم کے مقابلے میں اسے سنبھال کر رکھنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے‘‘۔ دنیا بھر کے بلوچوں میں سے ساٹھ فیصد بلوچ جو پاکستان میں رہتے ہیں ان کی اکثریت اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس مملکت پاکستان کے باہر جو بلوچ ایران اور افغانستان میں آباد ہیں وہ کس قدر بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور اگر وہ ایک دن لڑ کے پاکستان سے علیحدہ ہو بھی گئے تو یہ پڑوسی ممالک گِدھوں کی طرح منڈلاتے آئیں گے اور بھیڑیوں کی طرح ان کی سرزمین پر قابض ہو جائیں گے۔ سردار عطاء اللہ مینگل کا یہ بیان نواب اکبر بگٹی کے سانحے کے تھوڑی دیر بعد کا ہے۔ اس زمانے میں بھارت نے افغانستان اور ایران میں ابھی اپنی نئی حکمت عملی کے حساب سے کام شروع کیا ہی تھا۔
افغانستان میں قونصل خانے کھل رہے تھے اور ایران میں زاہدان کے بھارتی قونصل خانے کی سرگرمیاں چاہ بہار کی بندرگاہ تک پھیل گئی تھیں۔ یہ وہی بندرگاہ ہے جہاں بھارتی ’’را‘‘ کا حاضر سروس جاسوس کلبھوشن یادیو تعینات تھا۔ چاہ بہار سے سمندر کے ساتھ ساتھ ریتلے ٹیلوں کے درمیان آپ سڑک پر چند کلو میٹر سفر کریں تو پاکستان کی سرحد آ جاتی ہے۔ یہ علاقہ بے آباد بھی ہے اور بے آب و گیاہ بھی۔ یہی صورت حال پورے مکران کی ہے جس کا ایک طویل بارڈر ایران کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کے بعد یہ سرحد خاران اور چاغی کے اضلاع کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ قبیلہ پاکستان میں ہے تو سردار ایران میں، سردار پاکستان میں تو قبیلہ ایران میں۔ یہ تقسیم انگریز کی آمد سے پہلے نہ تھی۔
وہ بیس لاکھ بلوچ جو آجکل ایران میں آباد ہیں، ان کے علاقے 21 جنوری 1929ء کو ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران کا حصہ بنے۔ میر دوست محمد باراک زئی اس وقت ایرانی شہر، چاہ بہار، نک شہر، سرباز، زاہدان اور کاش پر مشتمل مغربی بلوچستان کی آزاد ریاست کا سربراہ تھا۔ یہ علاقہ میر بہرام خان باراک زئی کے زیر حکومت ایک خود مختار علاقہ تھا جس پر1915ء میں انگریزوں نے حملہ کیا اور شکست کھائی۔ بہرام خان کے مرنے کے بعد جب دوست محمد سربراہ بنا تو اس سے پہلے خطے میں ایک تبدیلی آ چکی تھی۔ انگریزوں کی مدد سے ایران میں رضاشاہ پہلوی نے قاچار خاندان کا تختہ الٹ کر پہلوی حکومت قائم کر لی تھی۔ انگریز نے رضا شاہ پہلوی کو بلوچ علاقے پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا اور اس نے یکم اگست 1928ء کو حملہ کر کے چھ ماہ کی جنگ کے بعد اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس دن سے لے کر آج تک ان علاقوں میں بلوچوں کی حیثیت بالادست نہیں ہوسکی۔
اس ایرانی بلوچستان میں جہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں اور سونے اور تانبے کی کانیں موجود ہیں، وہاں کی فی کس آمدنی ایران میں سب سے کم ہے اور عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ تعلیم زیادہ نہیں ہے۔ وہ کھیتی باڑی اور ماہی گیری پر گزارا کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پاکستان سے کپڑا، ماچسیں اور اونٹ وغیرہ اسمگل کرتے ہیں۔ سرکاری نوکریوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور سیاسی نمائندگی تو ان کی بالکل صفر ہے۔
پاکستان میں رہنے والے وہ بلوچ جو جیوانی، مند، ماشخیل، گرک، گراوک، تالاب، تفتان اور رباط جیسے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں، انھیں سرحد پار اپنے ہم قبیلہ بلوچوں کی حالت کا بخوبی علم ہے۔ انھیں معلوم ہے سیستان بلوچستان کا گورنر جسے استندار کہتے ہیں، ہمیشہ ایرانی النسل ہو گا، فرمان دار جو کمشنر کی سطح کا افسر ہے اور میر زبان جو ڈپٹی کمشنر کے سطح کا افسر ہے ، یہ بھی گزشتہ نوے سالوں سے ایرانی النسل ہی مقرر ہوتے چلے آئے ہیں۔ کسی بلوچ کو شاید یہ خواب بھی دکھائی نہیں دیتے کہ وہ ’’گرمک‘‘ یعنی کسٹم کا ایک معمولی سپاہی ہی بن سکتا ہے۔
چاہ بہار کی بندر گاہ جو بھارتی سرمایہ سے بنائی گئی اور وہاں سے جانے والی وہ سڑک جو دلآرام اور زرنج تک جاتی ہے، وہاں بلوچ مزدور تو ہو سکتے ہیں، عہدیدار نہیں۔ غربت سے تنگ آئے لوگوں نے اپنے پاکستانی ہم قبیلہ افراد سے مل کر اسمگلنگ کا پیشہ اختیار کیا۔ ایرانی بارڈر کے ساتھ ساتھ پٹرول پمپ قائم ہیں۔ بیچارا بلوچ ایک گدھا گاڑی پر چھوٹی سی ٹینکی رکھ کر اس میں پٹرول ڈلواتا ہے، پھر اسے یا تو کسی پاکستانی بھائی کو تھوڑے منافع پر بیچ آتا ہے یا پھر اگر اس کا ٹینکر والوں سے رابطہ ہے تو انھیں فروخت کر دیتا ہے۔ اسمگلنگ جب بڑے پیمانے پر شروع ہو جائے تو منشیات تک جا پہنچتی ہے۔ چاغی، خاران، پنجگور اور کیچ کے سرحدی اضلاع سے ایرانی بلوچستان کی ان غیر معروف شاہراہوں کے راستے منشیات کی اسمگلنگ کا دھندا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں بھی منشیات کا استعمال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اس وقت اس آٹھ کروڑ کی آبادی کے ملک ایران میں بائیس لاکھ منشیات کے عادی ہیں جن میں تیرہ لاکھ تو باقاعدہ اسپتالوں میں علاج کرا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران ہر سال 140 میٹرک ٹن منشیات پکڑتا ہے، مگر کہا جاتا ہے کہ یہ سمگل ہونے والی منشیات کا صرف 23 فیصد ہے۔ افغانستان کی سرحد سے ایران ترکی سرحد تک پہنچتے پہنچتے منشیات کی قیمت میں اسقدر اضافہ ہو جاتا ہے کہ ہر سال اس سرحد پر سمگلر ساٹھ کروڑ ڈالر کماتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کاروبار ایرانی اہلکاروں کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ سیستان بلوچستان میں گھومیں، آپ کو ایک عام شخص بھی یہ کہے گا، سمگلنگ کا دھندہ تو بڑے بڑے ایرانی بھی کرتے ہیں لیکن سخت ترین سزائیں غریبوں کو دی جاتی ہیں۔ 2005ء سے 2015ء تک 73 کم سن لڑکوں کو منشیات سمگلنگ کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔
بلوچ کسی محفل، سرکاری دفتر یا تقریب میں اپنی زبان نہیں بولتے۔ گور گیج قبیلے کا سربراہ ایران میں ہوتا ہے۔ ایک سرکاری ضیافت میں چاغی سے اس کے قبیلے کا رکن تحصیلدار عمر اس سے ملنے گیا۔ اس نے سردار سے بلوچی میں حال پوچھا، اس نے فارسی میں جواب دیا، دوسری دفعہ پوچھا، اس نے پھر فارسی میں جواب دیا، اس نے کہا تم کیسے بلوچ ہو کہ بلوچی میں جواب نہیں دے رہے، سردار نے کہا کہ اگر میں نے یہاں بلوچی بولنا شروع کی تو یہ لوگ مجھے محفل سے اٹھا دیں گے۔ ایرانی النسل ہونے کی برتری اور بلوچوں کی حالت زار کا پاکستان کے ان تمام بلوچوں کو بخوبی علم ہے جو روزانہ ان سے ملتے ہیں۔ یہی کیفیت افغانستان کے ہلمند صوبے میں بسنے والے بلوچ قبیلوں کی بھی ہے۔
ان کے لیے بھی وہاں کے رنگ میں رنگنے کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہے۔ پشتون معاشرے کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اب ذرا ایک نظر پاکستان کے مختلف صوبوں میں آباد بلوچوں کی حالت ملاحظہ فرمائیں۔ بلوچ جو بلوچستان سے نکل کر سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں آ کر آباد ہوئے، وہ وہاں کی سیاسی، انتظامی، معاشرتی اور معاشی زندگی میں مقامی لوگوں سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ آصف زرداری سے لے کر جمشید دستی اور لیاقت بلوچ تک ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جو پاکستانی سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ دنیا بھر میں بلوچ آبادی کو جس طرح تقسیم کیا گیا، ایسی مثالیں جنگ عظیم اول کے بعد بننے والی سیکولر قومی ریاستوں میں بے شمار قوموں کے بارے میں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو قوم دو یا تین ملکوں میں تقسیم ہوتی ہے وہ آزادی کے خواب دیکھنے سے پہلے بار بار سوچتی ہے کہ اس وقت اس کی حالت کیسی ہے اور آزادی کے بعد کہیں اس کا حال اس کبوتر کی طرح تو نہیں ہو جائے گا جو ایک پنجرے سے نکلتا ہے تو تاک میں بیٹھا ہوا بِلّا اسے جھپٹ لیتا ہے۔
(جاری ہے)
افغانستان میں قونصل خانے کھل رہے تھے اور ایران میں زاہدان کے بھارتی قونصل خانے کی سرگرمیاں چاہ بہار کی بندرگاہ تک پھیل گئی تھیں۔ یہ وہی بندرگاہ ہے جہاں بھارتی ’’را‘‘ کا حاضر سروس جاسوس کلبھوشن یادیو تعینات تھا۔ چاہ بہار سے سمندر کے ساتھ ساتھ ریتلے ٹیلوں کے درمیان آپ سڑک پر چند کلو میٹر سفر کریں تو پاکستان کی سرحد آ جاتی ہے۔ یہ علاقہ بے آباد بھی ہے اور بے آب و گیاہ بھی۔ یہی صورت حال پورے مکران کی ہے جس کا ایک طویل بارڈر ایران کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کے بعد یہ سرحد خاران اور چاغی کے اضلاع کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ قبیلہ پاکستان میں ہے تو سردار ایران میں، سردار پاکستان میں تو قبیلہ ایران میں۔ یہ تقسیم انگریز کی آمد سے پہلے نہ تھی۔
وہ بیس لاکھ بلوچ جو آجکل ایران میں آباد ہیں، ان کے علاقے 21 جنوری 1929ء کو ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران کا حصہ بنے۔ میر دوست محمد باراک زئی اس وقت ایرانی شہر، چاہ بہار، نک شہر، سرباز، زاہدان اور کاش پر مشتمل مغربی بلوچستان کی آزاد ریاست کا سربراہ تھا۔ یہ علاقہ میر بہرام خان باراک زئی کے زیر حکومت ایک خود مختار علاقہ تھا جس پر1915ء میں انگریزوں نے حملہ کیا اور شکست کھائی۔ بہرام خان کے مرنے کے بعد جب دوست محمد سربراہ بنا تو اس سے پہلے خطے میں ایک تبدیلی آ چکی تھی۔ انگریزوں کی مدد سے ایران میں رضاشاہ پہلوی نے قاچار خاندان کا تختہ الٹ کر پہلوی حکومت قائم کر لی تھی۔ انگریز نے رضا شاہ پہلوی کو بلوچ علاقے پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا اور اس نے یکم اگست 1928ء کو حملہ کر کے چھ ماہ کی جنگ کے بعد اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس دن سے لے کر آج تک ان علاقوں میں بلوچوں کی حیثیت بالادست نہیں ہوسکی۔
اس ایرانی بلوچستان میں جہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں اور سونے اور تانبے کی کانیں موجود ہیں، وہاں کی فی کس آمدنی ایران میں سب سے کم ہے اور عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ تعلیم زیادہ نہیں ہے۔ وہ کھیتی باڑی اور ماہی گیری پر گزارا کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پاکستان سے کپڑا، ماچسیں اور اونٹ وغیرہ اسمگل کرتے ہیں۔ سرکاری نوکریوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور سیاسی نمائندگی تو ان کی بالکل صفر ہے۔
پاکستان میں رہنے والے وہ بلوچ جو جیوانی، مند، ماشخیل، گرک، گراوک، تالاب، تفتان اور رباط جیسے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں، انھیں سرحد پار اپنے ہم قبیلہ بلوچوں کی حالت کا بخوبی علم ہے۔ انھیں معلوم ہے سیستان بلوچستان کا گورنر جسے استندار کہتے ہیں، ہمیشہ ایرانی النسل ہو گا، فرمان دار جو کمشنر کی سطح کا افسر ہے اور میر زبان جو ڈپٹی کمشنر کے سطح کا افسر ہے ، یہ بھی گزشتہ نوے سالوں سے ایرانی النسل ہی مقرر ہوتے چلے آئے ہیں۔ کسی بلوچ کو شاید یہ خواب بھی دکھائی نہیں دیتے کہ وہ ’’گرمک‘‘ یعنی کسٹم کا ایک معمولی سپاہی ہی بن سکتا ہے۔
چاہ بہار کی بندر گاہ جو بھارتی سرمایہ سے بنائی گئی اور وہاں سے جانے والی وہ سڑک جو دلآرام اور زرنج تک جاتی ہے، وہاں بلوچ مزدور تو ہو سکتے ہیں، عہدیدار نہیں۔ غربت سے تنگ آئے لوگوں نے اپنے پاکستانی ہم قبیلہ افراد سے مل کر اسمگلنگ کا پیشہ اختیار کیا۔ ایرانی بارڈر کے ساتھ ساتھ پٹرول پمپ قائم ہیں۔ بیچارا بلوچ ایک گدھا گاڑی پر چھوٹی سی ٹینکی رکھ کر اس میں پٹرول ڈلواتا ہے، پھر اسے یا تو کسی پاکستانی بھائی کو تھوڑے منافع پر بیچ آتا ہے یا پھر اگر اس کا ٹینکر والوں سے رابطہ ہے تو انھیں فروخت کر دیتا ہے۔ اسمگلنگ جب بڑے پیمانے پر شروع ہو جائے تو منشیات تک جا پہنچتی ہے۔ چاغی، خاران، پنجگور اور کیچ کے سرحدی اضلاع سے ایرانی بلوچستان کی ان غیر معروف شاہراہوں کے راستے منشیات کی اسمگلنگ کا دھندا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں بھی منشیات کا استعمال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اس وقت اس آٹھ کروڑ کی آبادی کے ملک ایران میں بائیس لاکھ منشیات کے عادی ہیں جن میں تیرہ لاکھ تو باقاعدہ اسپتالوں میں علاج کرا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران ہر سال 140 میٹرک ٹن منشیات پکڑتا ہے، مگر کہا جاتا ہے کہ یہ سمگل ہونے والی منشیات کا صرف 23 فیصد ہے۔ افغانستان کی سرحد سے ایران ترکی سرحد تک پہنچتے پہنچتے منشیات کی قیمت میں اسقدر اضافہ ہو جاتا ہے کہ ہر سال اس سرحد پر سمگلر ساٹھ کروڑ ڈالر کماتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کاروبار ایرانی اہلکاروں کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ سیستان بلوچستان میں گھومیں، آپ کو ایک عام شخص بھی یہ کہے گا، سمگلنگ کا دھندہ تو بڑے بڑے ایرانی بھی کرتے ہیں لیکن سخت ترین سزائیں غریبوں کو دی جاتی ہیں۔ 2005ء سے 2015ء تک 73 کم سن لڑکوں کو منشیات سمگلنگ کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔
بلوچ کسی محفل، سرکاری دفتر یا تقریب میں اپنی زبان نہیں بولتے۔ گور گیج قبیلے کا سربراہ ایران میں ہوتا ہے۔ ایک سرکاری ضیافت میں چاغی سے اس کے قبیلے کا رکن تحصیلدار عمر اس سے ملنے گیا۔ اس نے سردار سے بلوچی میں حال پوچھا، اس نے فارسی میں جواب دیا، دوسری دفعہ پوچھا، اس نے پھر فارسی میں جواب دیا، اس نے کہا تم کیسے بلوچ ہو کہ بلوچی میں جواب نہیں دے رہے، سردار نے کہا کہ اگر میں نے یہاں بلوچی بولنا شروع کی تو یہ لوگ مجھے محفل سے اٹھا دیں گے۔ ایرانی النسل ہونے کی برتری اور بلوچوں کی حالت زار کا پاکستان کے ان تمام بلوچوں کو بخوبی علم ہے جو روزانہ ان سے ملتے ہیں۔ یہی کیفیت افغانستان کے ہلمند صوبے میں بسنے والے بلوچ قبیلوں کی بھی ہے۔
ان کے لیے بھی وہاں کے رنگ میں رنگنے کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہے۔ پشتون معاشرے کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اب ذرا ایک نظر پاکستان کے مختلف صوبوں میں آباد بلوچوں کی حالت ملاحظہ فرمائیں۔ بلوچ جو بلوچستان سے نکل کر سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں آ کر آباد ہوئے، وہ وہاں کی سیاسی، انتظامی، معاشرتی اور معاشی زندگی میں مقامی لوگوں سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ آصف زرداری سے لے کر جمشید دستی اور لیاقت بلوچ تک ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جو پاکستانی سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ دنیا بھر میں بلوچ آبادی کو جس طرح تقسیم کیا گیا، ایسی مثالیں جنگ عظیم اول کے بعد بننے والی سیکولر قومی ریاستوں میں بے شمار قوموں کے بارے میں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو قوم دو یا تین ملکوں میں تقسیم ہوتی ہے وہ آزادی کے خواب دیکھنے سے پہلے بار بار سوچتی ہے کہ اس وقت اس کی حالت کیسی ہے اور آزادی کے بعد کہیں اس کا حال اس کبوتر کی طرح تو نہیں ہو جائے گا جو ایک پنجرے سے نکلتا ہے تو تاک میں بیٹھا ہوا بِلّا اسے جھپٹ لیتا ہے۔
(جاری ہے)
0 comments:
Post a Comment