theharferaz@yahoo.com




اقبال کے بارے میں ہمیشہ یہ میرا یقین اور ایمان رہا ہے کہ یہ دنیا کا واحد شاعر اور فلسفی ہے جو انسان کی زندگی کے ہر مرحلے میں رہنمائی کرتا ہے۔ بچپن میں ہوش سنبھالتے ہی آپ کی انگلی تھام لیتا ہے اور ایک ایسی دعا آپ کو سکھاتا ہے جو آیندہ آنے والی زندگی کے لیے رہنما اور ہادی ثابت ہو۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
زندگی کے ہر مرحلے، معاشرت و سیاست کے ہر موضوع اور فلسفہ و اقتصاد کے ہر نکتے پر آپ کو اقبال کے افکار سے رہنمائی ضرور ملے گی۔ یہ ہنر اور یہ عظمت دنیا میں کسی شاعر کو نصیب نہیں۔ ہر کوئی اپنے محدود موضوعات اور مخصوص تصورات پر مبنی شاعری کرتا رہا ہے۔ کسی کو محبوبہ کے لب و رخسار اور زلف گرہ گیر سے باہر نکلنے کی فرصت نہیں ملی تو کوئی انقلاب کے گیت گانے یا سرمایہ و محنت کے ترانے لکھتے دنیا سے چلا گیا۔ شیکسپئر جسے دنیا بھر میں سب سے زیادہ متنوع اور وسیع الخیال شخص سمجھا جاتا ہے۔
اس کے ہاں بھی روم و یونان کی عظمت رفتہ میں چمکتے کرداروں کے سوا کچھ اور نظرنہیں آتا۔ پورا مشرق جو اس دور میں اس کرۂ ارضی پر جگمگا رہا تھا، شیکسپئر کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ یہی کیفیت ان تمام شاعروں اور مفکروں کی ہے جنھیں آج دنیا جدید تہذیب کے درخشندہ ستارے سمجھتے ہوئے علم کے ماخذ اور منبع گردانتی ہے۔ کسی کے ہاں مشرق ہے تو مغرب نہیں تو کوئی سائنسی اخلاقیات کا قائل ہے اور آسمانی ہدایات سے بے بہرہ۔ کوئی صرف فلسفے کی گتھیاں سلجھاتا ہے اور زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ناآشنا ہے۔ یہ صرف اقبال ہے جو بندۂ مزدور کے تلخ ایام کی داستان بھی بیان کرتا ہے اور معراج انسانی کے عظیم واقعے سے درس بھی سکھاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ اقبال کا سارا کا سارا علم قرآن پاک سے مستعار ہے۔ اللہ کا نور ہدایت ہے۔ اس لیے کہ اقبال نے خود یہ دعویٰ کیا ہے۔
گردلم آئینۂ بے جوہر است
گر بجز فم غیر قراں مضمراست
پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں زار خارم پاک کن
(اگر میرے دل کے آئینے میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ اگر اس دل میں قرآن کے علاوہ کوئی ایک لفظ بھی موجود ہے تو اے اللہ میری عزت کا جو پردہ بنا ہے اسے چاک کردے، ان پھولوں جیسی دنیا سے مجھ جیسے کانٹے کو نکال دے)۔ اس لیے کہ خود قرآن پاک کا یہ دعویٰ کہ ’’اور ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے‘‘ (النحل 89)۔ قرآن کے اس علم نے اقبال کو رہنمائی عطا فرمائی اور اس نے تہذیب مغرب اور فرنگی مدنیت کا جس طرح پردہ چاک کیا ہے آدمی کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
میرے جیسا شخص جسے یورپ میں صرف چند دن میسر آئے ہیں یقینا اس کی آنکھیں اپنے اردگرد کے ماحول کی رنگینیوں اور عیش و آرام کو دیکھ کر خیرہ ہوجاتی ہیں اور آدمی یورپ کی زندگی کو انسانی تہذیب کی معراج سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اقبال تو برسوں یہاں رہے اور پھر اس کے سب سے بڑے ناقد بنے۔ سچ بات یہ ہے کہ مغرب کے اس تفصیلی سفر میں اگر اقبال کا کلام میرا ہمسفر اور ہمراہ نہ ہوتا تو میں اس رنگینی کے پیچھے چھپی ہوئی تاریکی بلکہ اتھاہ تاریکی کو نہ سمجھ پاتا۔
یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
مادہ پرستی پر استوار اس تہذیب میں علم و ہنر کی روشنی تو نظر آتی ہے لیکن انسانی اخلاقیات اور اجتماعی محبتوں کے اصول سے عاری ہے۔ اس وقت یورپ میں سب سے زیادہ تعداد بوڑھے لوگوں کی ہوتی جا رہی ہے۔ آپ ان بوڑھوں کو عالم تنہائی میں موت کی جانب جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کسی موت کی خبر اس کا پڑوسی میونسپل سروس والوں کو دیتا ہے اور کوئی اولڈ ایج ہوم میں چند نرسوں کے ہاتھوں ریاست کے زیر انتظام جنازے کی رسوم کے بعد قبر میں اتر جاتا ہے۔
شام ڈھلے شراب خانوں پر افسردہ و پژمردہ نوجوانوں کا ہجوم ہوتا ہے جو اس غم کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوتے ہیں کہ کسی کو اس کا بوائے فرینڈ چھوڑ گیا تو کسی کو اس کی گرل فرینڈ۔ انھی میزوں پر نئے ساتھی کی تلاش ہوتی ہے جسے ہو سکتا ہے اگلے چند ماہ ہی ساتھ چلنا ہو۔ آیندہ آنے والی نسلوں سے یہ لوگ اس قدر مایوس ہیں کہ کوئی بچے پیدا کرنا نہیں چاہتا کہ اگر زندگی کے آخری ایام اکیلے یا اولڈ ایج ہوم میں گزارنا ہے تو پھر اولاد کا کیا فائدہ۔ لیکن میرے جیسے سیاح ان کے سرخ و سفید تمتماتے چہروں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ کس قدر مطمئن لوگ ہیں۔ اقبال نے کہا تھا
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یہ غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
جس طرز معاشرت میں آج یورپ زندہ ہے اسے اقبال نے جس طرح بیان کیا ہے، وہ کمال ہے۔
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات
عریانی و مے خواری تو سب کو نظر آتی ہے لیکن بے کاری و افلاس کے بارے میں لوگ کہیں گے کہ وہ کیسے۔ یورپ میں ایک ایسے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی ہے جس میں دولت کی بنیاد پر استحصال کیا جائے۔ تمام بڑی بڑی فیکٹریاں چین، مشرق بعید، لاطینی امریکا اور افریقہ منتقل کر دی گئیں ہیں۔ وہ قومیں اپنا خون پسینہ ایک کر کے بہت ہی کم اجرت پر کام کرتی ہیں اور یورپ کا سرمایہ دار مال دار ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس سے وہ جو ٹیکس دیتا ہے وہ سب سے پہلے شہری سہولیات پر خرچ ہوتا ہے اور پھر ان افلاس زدہ لوگوں پر جو اس معاشرے میں سوشل سیکیورٹی کے نام پر وظیفہ کھاتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ منشیات کے عادی انھی معاشروں میں ہیں۔ جو کبھی وظیفے پر جیتے ہیں اور کبھی علاج کے نام پر آبادکاری مراکز میں۔ تیس فیصد کے قریب بوڑھے یا پنشن لیتے ہیں اور اکیلے رہتے ہیں یا پھر اولڈ ایج ہوم میں۔ اسپین سے اٹلی، فرانس سے بلجیئم اور ناروے سے جرمنی تک کے اس سفر میں اقبال بہت یاد آ رہے ہیں۔ پورے کا پورا معاشرہ مادیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا اور جس کی بنیاد ایک خون چوسنے والے سودی نظام پر رکھی گئی ہے۔
رعنائی تعمیر میں رونق میں صنعا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
اس پورے یورپ کا سب سے امیر شہر جنیوا ہے جو دنیا بھر کے چور اور بددیانت حکمرانوں کے پیسوں کو بینک میں رکھ کر سود سے اپنی فی کس آمدنی بڑھاتا ہے۔ یورپ خود کو اس صدی میں ایک مضطرب یورپ کہتا ہے۔ اس کے مفکرین کہتے ہیں یہ ہماری اضطراب ”Anxiety” کی صدی ہے۔ اقبال نے ایک سو سال پہلے کہا تھا ان کے ہاں ترقی کی معراج انسان نہیں سائنسی ایجادات ہیں اور ایجادات جسمانی سکون دیتی ہیں ذہنی اطمینان نہیں۔
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات



0 comments:

Post a Comment

 
Top