ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا، قوم کے اعصاب کو شل کر دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کسی قوم کی کیا ہو سکتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سوتنوں کی طرح ایک دوسرے کو طعنے دینے میں مصروف ہیں لیکن کسی جانب سے کوئی عملی اقدام ہوتا نظر نہیں آتا۔ جلسے ہو رہے ہیں، جلوس نکالے جا رہے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر دھماچوکڑی مچتی ہے۔ طعن و تشنیع کے تیر چلائے جاتے ہیں۔
نتھنوں سے پھنکاریں نکلتی ہیں اور آنکھوں سے شعلے۔ رات کو سب میٹھی تان کر سو جاتے ہیں۔ اگلی صبح پھر وہی تماشا۔ حیرت تو حکومت کو ان جگادریوں پر ہوتی ہے جو روز پریس کانفرنس کرتے ہیں، اپوزیشن کے رہنماؤں کو کرپٹ اور چور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کی حکومت کس قدر نااہل ہے، ان بددیانتوں سے ملی ہوئی کہ کبھی ایف آئی اے، نیب یا ایف بی آر کو حکم نہیں دیتی کہ ان اپوزیشن کے بددیانت لیڈروں کے خلاف مقدمے درج کرو۔ دوسری جانب اپوزیشن ہے کہ جس میں کئی دہائیوں کے تجربے کے حامل سیاست دان موجود ہیں۔
وکلاء کا ایک جم غفیر ان کے ساتھ ہے، روز ایک نیا لائحہ عمل طے ہوتا ہے، روز ایک نئی ڈیمانڈ سامنے آتی ہے، آخری ڈیمانڈ وہ سوالنامہ ہے جو وزیراعظم کو دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے اس سوالنامے کے بعد پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جواب دوں گا، نہیں دوں گا، جواب لے کر رہیں گے، جہاں جواب دینا ہو گا وہاں نہیں، بیانات کا ایک ایسا سلسلہ ہے کہ چلا آ رہا ہے۔ البتہ ایک مطالبہ درست ہے کہ اگر آپ نے وزیراعظم کے خلاف صحیح تحقیقات کرنا ہیں تو ان کا استعفیٰ ضروری ہے کیونکہ پاکستان کے تمام ادارے مفلوج کر دیے گئے ہیں، کسی نیب، ایف آئی اے یا ایف بی آر میں ہمت نہیں کہ کرسی پر متمکن وزیراعظم کے خلاف تحقیقات کی فائل کو ہاتھ بھی لگائے۔ اپوزیشن کو معلوم ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے۔
شاید اس لیے یہ مطالبہ کیا گیا تا کہ معاملہ طول پکڑے اور کچھ حاصل نہ ہو۔ حالانکہ پانامہ لیکس کے آنے اور حسین نواز کے اعتراف کے بعد وزیراعظم کو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹانے کا عمل صرف چند ہفتوں کی کارروائی ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اپوزیشن میں موجود اتنے بڑے بڑے قانون دان اس طرف کیوں نہیں سوچ رہے۔ یہ طریق کار کیا ہے؟
ڈاکٹر اکرام الحق میرے بیچ میٹ ہیں، انھوں نے میرے ساتھ 1984میں سول سروس جوائن کی۔ وہ انکم ٹیکس گروپ میں آئے تھے۔ چونکہ سول سروس سے پہلے ایک صحافی تھے، اس لیے ان کا جی زیادہ دیر تک انکم ٹیکس میں نہ لگ سکا اور نوکری چھوڑ وکالت شروع کی اور اب سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ انکم ٹیکس وہ محکمہ ہے جس کے انسپکٹر سے لے کر چیف کمشنر تک ’’شریف خاندان‘‘ کی ایک ایک رمز سے واقف ہے۔ کوئی بھی شخص جس کی پوسٹنگ لاہور میں رہی ہو اسے ایسی ایسی کہانیاں معلوم ہیں کہ بیان کرنا شروع کر دی جائیں تو ایک ہزار رات کی کہانیاں سنائی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے اس دن اسی انکم ٹیکس کے ’’شریفانہ‘‘ علم کی بنیاد پر ایک حیرت انگیز راستہ مجھے بتایا اور تمام کاغذات کھول کر سامنے رکھ دیے۔ میں حیران رہ گیا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو کس قدر آسانی سے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اپوزیشن کے عظیم وکلاء نے اس جانب آج تک پیشرفت نہیں کی۔ ورنہ اب تک کیس کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ ترتیب وار تفصیل رکھ رہا ہوں تا کہ ان وکلاء حضرات کے لیے آسانی رہے جو اپوزیشن میں ہیں اور اب تک خاموش ہیں۔
(الف) نواز شریف صاحب نے 2013کے انتخابات کے وقت داخل کیے گئے گوشواروں میں اپنی اہلیہ اور بیٹی مریم صفدر کو اپنے زیر کفالت DEPENDENT ظاہر کیا ہے مگر اپنی بیٹی کے تمام تر اثاثہ جات  جو اندرون ملک اور بیرون ملک تھے انھیں ظاہر نہیں کیا۔ اثاثہ جات چھپانے کے ضمن میں سپریم کورٹ نے حال ہی میں محمد احمد چٹھہ بنام افتخار چیمہ فیصلے میں لکھا کہ جو شخص بھی اپنے زیر کفالت (dependent) فرد کا کوئی اثاثہ ظاہر نہیں کرے گا وہ نااہل قرار پائے گا۔
(ب) محمد نواز شریف نے 2013کے الیکشن کے وقت 2011,2010 اور 2012کے مالی سالوں کے اثاثہ جات اور آمدنی و خرچ کا حساب جو محکمہ انکم ٹیکس کو دیا تھا وہ اپنے نامزدگی کے کاغذات کے ہمراہ پیش کیا۔ یہ ایک قانونی ضرورت تھی۔ ان کاغذات کے مطالعہ سے مندرجہ ذیل سوالات پٹیشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔
(1) شمیم فارمز (رائے ونڈ محل) کے اخراجات کن ذرایع سے پورے کیے گئے۔
(2) محترمہ مریم صفدر کے نام زرعی زمین کی مالیت 24,851,526 روپے دکھائی گئی، مگر غیر ملکی آف شور کمپنیوں کے ذریعے حاصل کیے گئے قرضوں کو چھپایا گیا۔ بینک کاغذات کے مطابق انھوں نے بھائی حسین نواز کے ساتھ مل کر قرضہ کے لیے دستخط کیے۔ اگر ان کا سمندر پار کمپنیوں یا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں تو انھوں نے کس حیثیت سے دستخط کیے تھے۔
(3) محمد نواز شریف کا اپنی زیر کفالت بیٹی کے اثاثہ جات چھپانا ان کی نااہلی کے لیے کافی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ III کے تحت ان پر کیس بھی بنے گا۔ ایف بی آر ان کی فائل کو 2019ء تک قانونی طور پر کھول سکتا ہے۔
(4) انکم ٹیکس گوشواروں میں محمد نواز شریف نے اپنی آمدن برائے سال 2011میں تنخواہ (10,20,000) زرعی آمدن (50,75,000) اور دوسری آمدن (14,14,23,354) روپے اور بینک سے حاصل کردہ سود (97,755) بتائی ہے۔ جب کہ بیٹے سے تحفے میں حاصل کردہ رقم (12,98,36,905) روپے پر ٹیکس ادا نہیں کیا۔
یہ رقم نہ تو کسی کراس چیک سے آئی اور نہ ہی بیٹے کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تھا۔ یوں یہ رقم قابل ٹیکس تھی اور محمد نواز شریف نے واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کیا اور یوں آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 کے تحت نااہل قرار دیے جا سکتے ہیں۔
(5) حدیبیہ ملز محمد نواز شریف صاحب نے 2011 اور 2012میں اپنے والد محترم کی وفات کے بعد وراثت میں ملنے والے شیئرز تو ظاہر کیے مگر لندن کی پراپرٹی میں حصہ نہیں دکھایا۔ 1999 میں لندن کی عدالت کے فیصلے کے مطابق محمد نواز شریف کے والد میاں محمد شریف جائیداد کے مالک تھے تو اس جائیداد کا شرعی حصہ وفات پر جناب محمد نواز شریف کو ضرور ملا ہو گا۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں دکھایا۔ اس لیے کہ یا تو پراپرٹی ان کے نام پر نہیں تھی یا پھر شروع ہی سے بچوں کے نام پر خریدی اور 2007میں بچوں کے نام منتقلی ایک دھوکا ہے۔
(6) گارڈین اخبار نے مورخہ 5 اپریل 2016 کو اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے محترمہ مریم صفدر نے اپنے بھائی حسین نواز کے ہمراہ ایک اور سمندر پار کمپنی (Coomba Group) کے ذریعے 3.5 ملین برطانوی پاؤنڈ کا قرضہ حاصل کیا ہے۔ اس کمپنی کا بھی کوئی ذکر وزیراعظم یا مریم صفدر کے اثاثہ جات میں نہیں ہے۔
ان تمام حقائق کو سامنے رکھا جائے تو انکم ٹیکس گوشواروں میں غلط بیانی پر ایف بی آر انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 122(5) اور III کے تحت فوری کارروائی کر سکتا ہے۔ الیکشن قوانین Peoples Representative Act کے سیکشن 12(2)(C&D) کے تحت نااہلی کا فوری مقدمہ درج ہوتا ہے۔ پانامہ لیکس کے آنے کے فوراً بعد یہ قدم اٹھایا جانا چاہیے تھا۔
اس لیے کہ ایسا کرنے سے آپ وزیراعظم نواز شریف کو دفاعی پوزیشن پر ڈال کر جواب دینے پر مجبور کر سکتے تھے اور جواب ان کے پاس نہیں تھے اور ثبوت اس قدر واضح تھے کہ نااہلی ان کا مقدر بن جاتی۔ لیکن اپوزیشن کو تو اس معاملے کو کھینچنا ہے، طول دینا ہے، ایک میلہ ہے جو لگا ہوا ہے۔ قوم کے اعصاب ہیں جو شل ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی ہے جو اس قوم کو اس عذاب سے بھی نجات دے اور وزیراعظم کی نااہلی کے بعد کرپشن کے عذاب سے بھی۔ شاید موجودہ سیاسی قیادت ایسا نہیں چاہتی۔ ورنہ یہ سب سے آسان راستہ ہے۔ اس کے بعد سب کو معلوم ہے کہ کیسے سب تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا۔

0 comments:

Post a Comment

 
Top