میرے بنیادی کالم ’’طاغوت سے انکار‘‘ کے بعد جس فکری بحث کا آغاز خورشید ندیم صاحب نے کیا ہے میں اس کے لیے ان کا ممنون ہوں کہ مجھے ایک بار پھر سے قرآنی تعلیمات‘ سیرت رسول اللہﷺ‘ صحابہ کا طرز عمل اور فقہائے امت کی آراء پر ایک نظر ڈالنے کا موقع ملے گا اور گزشتہ چودہ سو سالوں میں اس امت میں جو انقلابی تحریکیں اٹھیں‘ عزیمت کی جو داستانیں رقم ہوئیں‘ حق گوئی کے جو معیار بلند ہوئے اور راہ حق میں صعوبتوں اور بلاؤں کے باوجود جس صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا گیا ان کا ایک بار پھر سے مطالعہ کروں گا۔
 یہ لوگ تو امت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ یہ باطل اور طاغوت کے خلاف اٹھنے والے قافلوں کے سالار ہیں۔ یہی تو ہماری تاریخ کی آبرو ہیں ورنہ ہماری تاریخ تو خلفائے راشدین کے بعد ملوکیت کی ایک طویل داستان ہے۔ میرے کالم کے جواب میں اب تک تین مسلسل کالم تحریر کیے جا چکے ہیں۔ پہلا کالم تو ایک تعارفی نوعیت کا تھا جس میں انھوں نے میرے کالم میں اٹھائے گئے موضوعات کو بحث کا محور بنایا، لیکن اصل اور بنیادی نکتہ زیر بحث وہی ہے کہ ’’تبدیلی قیادت سے آتی ہے یا معاشرے سے‘‘۔ اگلے دو کالموں میں ساری کی ساری بحث کا نچوڑ یہ تھا کہ ’’مسلم امہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اہل علم اگر اہل اقتدار میں کوئی کجی دیکھتے یا فرائض سے انحراف پاتے تو ان کو متوجہ کرتے اور آخرت میں جواب دہی کا احساس دلاتے۔
 ان کے نزدیک یہ جمہور علماء کا موقف رہا ہے جب کہ ایک اقلیتی گروہ انقلابی سوچ کا حامل بھی رہا ہے‘‘۔ کس خوبصورتی سے انھوں نے حق و باطل کو جمہوریت کی کسوٹی پر عددی اکثریت سے ناپنے کی کوشش کی ہے یعنی جسے علماء کی اکثریت مان لے وہ حق ہے خواہ وہ شاہانہ دربار کے کاسہ لیس ہوں‘ وقتی مصلحت کا شکار ہوں یا عزیمت اور حق گوئی کی مصیبتوں سے ڈرتے ہوں۔ خورشید ندیم صاحب کا یہ استدلال اسلامی تاریخ پر سچ ثابت نہیں ہوتا۔ اس امت میں ہر دور میں بڑے سے بڑا صاحب علم وقت کے بادشاہ کی کجی کے خلاف صرف نصیحت پر اکتفا نہیں کرتا رہا بلکہ اس نے نعرہ حق بلند کیا‘ کوڑے کھائے‘ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ یہاں تک کہ شہادت کے منصب سے بھی سرفراز ہوتے رہے۔
 لیکن تاریخ سے جس طرح کا استدلال خورشید ندیم صاحب نے کیا ہے اس کی جرات اور حوصلہ تو چودہ سو سال میں کسی مسلم مفکر نے نہیں کیا۔ انھوں نے کمال یہ کیا ہے کہ وہ انقلابی راستہ جس پر چلنے کا آغاز سیدنا امام حسینؓ نے کربلا کے میدان سے کیا تھا اور جس پر زید بن علی‘ امام نفس ذکیہ‘ امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر اور اس امت کے چراغ راہ چلتے رہے‘ اسے نظرانداز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا آغاز خوارج سے ہوا تھا۔ جو امت چودہ سو سال سے اس بات پر متفق ہے کہ خلفائے راشدین چار ہیں اور انھی کا نام خطبے میں آج تک پڑھا جاتا ہے۔ موصوف نے ان کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں اور سازشوں کو انقلابی تحریک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی اسلامی انقلابی تحریک جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کا طریق کار غلط تھا۔
 حضرت عثمانؓ کے بارے تو تاریخ کی گواہی اتنی مستند ہے کہ ان کے خلاف اٹھنے والے لوگ مصر‘ کوفہ اور بصرہ میں خفیہ خط و کتابت سے رابطے میں اکٹھے ہوئے پھر حضرت عثمانؓ کے خلاف بے بنیاد الزامات کی فہرست مرتب کی‘ مدینہ پہنچے‘ حضرت علیؓ‘ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تینوں نے انکار کیا بلکہ حضرت علیؓ نے تو ان کے ایک ایک الزام کا جواب دے کر حضرت عثمانؓ کی پوزیشن واضح کی۔ مدینے کے مہاجرین اور انصار میں سے کوئی ایک بھی ساتھ نہ تھا۔
 حضرت عثمانؓ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بصرے میں ان کے گورنر حضرت سعید بن العاصؓ کے طرز عمل سے ناراض ہو کر کچھ لوگوں نے بغاوت برپا کی تو عوام نے ان کا ساتھ نہ دیا اور جب حضرت عثمانؓ کے مقرر کردہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے لوگوں کو بیعت کی تجدید کے لیے بلایا تو لوگ بغاوت کے علمبرداروں کو چھوڑ کر بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے (طبقات ابن سعد)۔ اس پورے گروہ میں جو حضرت عثمانؓ کے خلاف اٹھا کسی عالم‘ فقیہہ‘ مجتہد کا نام ہی بتا دیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنی دعوت کو عام نہیں کیا بلکہ خفیہ سازش سے حضرت عثمانؓ کو مطعون کرنے کی کوشش کی۔
 اس خفیہ سبائی سازش اور خلیفہ راشد حضرت عثمانؓ کے خلاف جنم لینے والی خفیہ تحریک کو جو چند افراد پر مشتمل تھی اس کے بارے خورشید ندیم صاحب فرماتے ہیں ’’یہ اس امت میں اٹھنے والی پہلی انقلابی تحریک کا عملی آغاز تھا‘‘۔ اس کے بعد ان کے نزدیک دوسری انقلابی تحریک خوارج کی تھی۔ آدمی جب استدلال کی قوت کو اس طرح استعمال کرنے لگے کہ حق و باطل میں فرق مٹ جائے تو پھر صرف ذات کا تعصب راج کیا کرتا ہے۔ جس گروہ کو پوری امت چودہ سو سال سے متفقہ طور پر گمراہ تصور کرتی ہے اور جو خلیفہ راشد سیدنا علیؓ کے خلاف اٹھے تھے انھیں اسلامی انقلابی تحریک کا سرخیل کہنا اور پھر انھیں طریق کار کی بنیاد پر غلط قرار دینا کس کمال کی بات ہے۔
 موصوف کو ایک بار قرآنی تعلیمات اور سیرت رسولﷺ اور احادیث کے ذخائر کو دوبارہ دیکھنا چاہیے۔ کیا ایک راشد خلیفہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ نہیں جناب والا نہیں۔ لیکن ایک ظالم‘ فاسق‘ اور ایسے حکمران کے خلاف جو نماز‘ زکوٰۃ‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نظام کو نافذ نہ کرے‘ بغاوت کرنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے (صحیح الجامع)۔ کس خوبصورتی سے موصوف سیدنا امام حسینؓ کا ذکر کیے بغیر حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ تک جا پہنچے۔
 سیدنا امام حسینؓ اس وقت موجود تمام اصحاب سے مختلف رائے رکھتے تھے اور یہ ان کی بصیرت تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ آج اگر اس امت کو واضح طور پر نہ بتایا گیا کہ تمہارا راستہ بدلا جا رہا ہے تو پھر کبھی بھی حق کی گواہی دینے والا نہیں اٹھے گا خواہ اس کے لیے جان بھی دینا پڑے۔ کوفے کے افراد کے ہزاروں خطوط جن کی بنیاد پر آپ اس جانب روانہ ہوئے تھے کہ کیا اس بات کا اشارہ نہیں کہ آپ ایک انقلابی تحریک کے قافلہ سالار بننے جا رہے تھے اور رہتی دنیا تک رہیں گے ان کی مظلوم شہادت سے جو چراغ روشن ہوئے وہ آج تک اس امت کا سرمایہ ہیں۔
 کیا آپ تاریخ سے حضرت زین العابدین کے فرزند حضرت زید بن علی کے خروج اور ان کی انقلابی تحریک کو بھی کھرچ دیں گے جن کے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ کا فتویٰ یہ تھا ’’خروجی بضاھی خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم بدر‘‘ (حضرت زید بن علی کا اس وقت اٹھ کھڑے ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے)۔ حضرت زید بن علی اموی بادشاہ ہشام بن عبدالمالک کے خلاف جہاد کی دعوت لے کر اٹھے تھے۔
 انھوں نے فرمایا ’’اللہ کی قسم مجھے یہ چیزسخت ناگوار ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروں اور اس حال میں کہ میں نے ان کی امت کو نا معروف کا حکم دیا ہو اور نہ ہی کبھی منکر سے منع کیا ہو‘‘۔ آپ کی دعوت جہاد کی تقریر کے یہ الفاظ ہم تمام لوگوں کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ آؤ اور ظالموں سے جہاد کرو‘‘۔ اس وقت بھی ’’جمہور علماء‘‘ زید بن علی کے خروج کے خلاف تھے لیکن ان کی شہادت کی مشعل وہ راہ متعین کرتی ہے جو حق کے اعلان کی راہ ہے اور جن کی تصدیق امام ابو حنیفہ کا یہ اعلان کہ ان آمد رسول اللہ کی بدر میں آمد سے مشابہت رکھتی ہے۔
 اللہ نے امام ابو حنیفہ کے اس فقرے کی اس قدر لاج رکھی کہ جب کوفے کے لوگ حضرت زید بن علی کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو ان کے ساتھ اتنے ہی لوگ تھے جتنے بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یعنی تین سو تیرہ۔ امام ابو حنیفہ نے عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کے مقابلے میں حضرت امام حسنؓ کی اولاد میں سے ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن علی کے خروج کی بھی علانیہ حمایت کی اور سرمایہ بھی فراہم کیا۔ آپ کو اس بڑھاپے کے عالم میں کوڑوں کی سزا دی گئی اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ پھر لوگوں کے خوف سے باہر نکالا گیا اور ابو جعفر المنصور نے انھیں ایک دن اپنے پاس بلایا اور ایک پیالے میں زہر دے کر پینے کو کہا‘ آپ نے کہا میں خود کشی میں تمہاری مدد نہیں کروں گا۔
 آپ کو پکڑ کرزبردستی زہر منہ میں انڈیلا گیا۔ اس سے پہلے انھیں روزانہ قید خانے سے باہر نکالا جاتا اور کپڑے اتروا کر لوگوں کے سامنے کوڑے برسائے جاتے۔ اسی منصور کے سامنے ایک اور کلمہ حق امام مالک نے ادا کیا۔ آپ کی مشکیں اس زور سے کس دی گئیں کہ آپ کے دونوں بازو جڑ سے اکھڑ گئے یہی وجہ ہے کہ مالکی آج بھی امام مالک کی اتباع میں ہاتھ کھلے چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں پھر انھیں ستر کوڑوں کی ضربیں لگائی گئیں۔
 آپ اس زخمی حالت میں بھی اس اونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو گئے جو آپ کو سوار کر کے شہر میں رسوا کرنے کے لیے لایا گیا تھا اور فرمایا (من عرفنی فقد عرفنی و من لم یعرفنی فا نا مالک ابن انس اقول ان الطلاق المکرہ لیس بشئی) ’’جو مجھے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا جان لے میں مالک انس کا بیٹا اس مسئلے کا اعلان کرتا ہوں کہ جس کے اعلان سے مجھے جبراً روکا جا رہا ہے۔ آج امام ابو حنیفہ کے کروڑوں مقلدین ہیں اور امام مالک کے بھی کروڑوں مقلدین‘ لیکن کوئی اس عزیمت اور انقلابی روح کے ساتھ ظالم بادشاہ کے سامنے جہاد کے لیے کھڑا نہیں ہو رہا یہی اس امت کی بے بسی ذلت و رسوائی اور پستی کی وجہ ہے۔

 (جاری ہے)

0 comments:

Post a Comment

 
Top